top of page
Search

زندہ شہید سردار قاسم سلیمانی-02/01/2021

زندہ شہید سردار قاسم سلیمانی

تحریر: شبیر احمد شگری

شہادت ایک عظیم سعادت ہے ۔ موت کا ذائقہ تو ہر ایک کو چکھنا ہے ۔ لیکن جو شہادت پا لیتا ہے وہ اللہ پاک کی عظیم رحمتوں اور انعام و اکرام کا حقدار قرار پاتا ہے ۔ کیوں کہ شہید اپنی جان کا نذرانہ خوبصورت قربانی کے انداز میں اس جان آفرین کے سپرد کرتا ہے جس نے ہی اسے عطا کی ہوتی ہے ۔ حسینیت کے مشن پر چلتے ہوئے اگر شہادت نصیب ہوجاتی ہے تو اور کیا چاہئے ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد ملت ایران نے دین کی خاطر بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ ایران کے ہر گھر میں تقریبا ایک شہید موجود ہے ۔ ان شہداکے مقدس خون کی آبیاری سے ہی آج ایران کا یہ گلشن آباد ہے ۔ اور انقلاب کے چالیس سال گزرنے پر بھی دنیا کے بڑے بڑے بدمعاشوں کے ایڑی چوٹی کے زور لگانے کے باوجود ایران کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے ۔بلکہ انھیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ کبھی ایران پر جنگ مسلط کی جاتی ہے کبھی پوری دنیا بائیکاٹ کرتی ہے ۔ کبھی اس کے لیڈرز پر بزدلانہ حملے کئے جاتے ہیں۔لیکن ایران اسی استقامت کے ساتھ ڈٹ کے کھڑا ہے ۔ دنیا کی مشکلات پر ایران نے نہ صرف اپنے آپ کو منوایا ہے بلکہ دوسروں کو سبق بھی دئیے ہیں۔2020 سال کے آغاز اور انجام پر بھی ایسا ہی ہوا سال کے آغاز میں ہی 3 جنوری کو ایران کے عظیم جنرل قاسم سلیمانی کو عراق کے سلیمانی کو عراق کے دورے کے موقع پر امریکہ نے بزدلانہ حملے میں شہیدکردیا۔بزدلانہ وار کرکے امریکہ نے یہ سمجھا کہ اس نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیاہے ۔ لیکن ایران کے بدلے کا اعلان اور فورا ًہی امریکی بیس پر حملہ نے امریکہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ پھر اس کی ہمت نہ ہوسکی کہ وہ ایران کو للکارے ۔لیکن اندر ہی اندر بھرپور دشمنی لئے بیٹھا ہے ۔دراصل اسلامی جمہوریہ ایران ایک اسٹریٹجک اور طاقتور ملک ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے اسلامی جمہوریہ ایران نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیاہے ۔کیونکہ درحقیقت ایران کمال کی شخصیات اور ہیروزسے بھرا پڑا ہے ۔ اسی لئے دہشتگردی اورانتہاپسندی کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کا کردارقابل قدر ہے ۔ایران ایک طرف تو استعمار سے لڑتا رہا ہے تو دوسری طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنے ،ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے ،انہیں بیدار کرنے ،ان کو دہشت گردی کی آگ سے نکالنے اور انھیں تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔


اسلامی دنیا میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورسز کے سربراہ بریگیڈر جنرل سردار قاسم سلیمانی کا نڈر اور دلیرانہ کردار ناقابل فراموش ہے ۔اور انھوں نے دلیرانہ انداز میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔


ایک وقت تھا کہ داعش جیسی تنظیم نے پوری دنیا کو خوف و ہراس میں مبتلا کررکھا تھا۔عراق اور شام میں اہم مقامات کو لوٹا گیا۔اور مقدس مقامات کو نشان بنایا گیا۔ اورانبیا اور صحابہ کے مزارات کی بے حرمتی کی گئی۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی۔ نت نئے فتوے دئیے گئے اور پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔عالم اسلام کے اس ناسور کو ختم کرنے میں جنرل قاسم سلیمانی نے کمر کس لی پھر آخر کار و ہ وقت بھی آیا جب سردار شہید قاسم سلیمانی نے رہبر معظم کو خط لکھا کہ داعش کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔


جنرل سلیمانی نے رہبرمعظم انقلاب امام خامنہ ای کے نام خط میں لکھا کہ تقریبا 6 سال قبل مولا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانے کی طرح ایک خطرناک فتنہ کھڑا کیا گیا جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر خاص کر امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے ایک ویرانگر فتنہ پورے عالم اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔یہ خطرناک اور تباہ کن فتنہ تمام اسلامی ممالک کو آپس میں لڑانے کی خاطر ایجاد کیا گیا تھا اور داعشی دہشت گردوں نے ابتدائی مہینوں میں عراق اور شام کے ہزاروں جوانوں کو تہ تیغ کرکے اس ممالک کے شہروں اور دیہاتوں سمیت ہزاروں مربع کلومیٹر پر قبضہ جمالیا اور ہزاروں سڑکیں، پل، ورکشاپس، فیکٹریاں، تیل اور گیس کے متعدد ذخائر، اسکول، ہسپتال، رہائشی مکانات اور بنیادی ڈاھانچے مکمل طور پر تباہ کردئے گئے ۔


جنرل سلیمانی کا کہنا تھا کہ عراق اور شام میں داعش دہشت گردوں کی جانب سے کی جانے والی تخریبی کارروائیوں اور نقصانات کا حساب لگانا مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم 500 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔


انہوں نے مزید لکھا کہ داعشی دہشت گردوں کے مظالم قابل بیان نہیں ہیں، دہشت گردوں نے درندگی کی انتہا کردی تھی جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں کا سرقلم کرنا، زندہ انسان کی کھال اتارنا، مردوں کو ان کی ناموس کے سامنے زندہ جلانا، جوان لڑکیوں کو اغوا کر کے خرید وفروش کرنا وغیرہ۔ عراق اور شام کے مظلوم عوام نے داعشی سفاکانہ مظالم کے سامنے بالکل بے بس ہوکر گھر بار سب کچھ چھوڑ کر دوسرے علاقے اور ملکوں کی طرف ہجرت کی اور جو نہ جاسکے ان کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔


داعشی دہشت گردوں نے جس علاقے میں قدم رکھا وہاں کے تمام آثار قدیمہ، مساجد، امام بارگاہوں کو بموں سے اڑا دیا جس میں ہزاروں بے گناہ نمازی شہید ہوگئے ۔


داعش نے 6 ہزار سے زائد مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نام پر فریب دے کر خودکش حملے کروائے جس میں مساجد، مدارس، طبی مراکز، مسلمانوں کے عمومی اجتماعات کے مراکز، فیکٹریوں وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمان جام شہادت نوش کرگئے ۔ان تمام تر ظلم و تشدد کے پیچھے امریکی حکام کا ہاتھ تھا جیسے کہ حال ہی میں امریکی اعلی عہدہ دار(ٹرمپ) نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ داعش کو امریکی سابق حکمرانوں نے بنایا۔ اب بھی امریکی داعش کی بھرپور مدد کررہے ہیں۔


جنرل سلیمانی کا کہنا تھاکہ ان تمام ترسازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ختمی مرتبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت عظام کے طفیل اور عالی جناب کی حکیمانہ اور مدبرانہ احکامات اور ہدایات اور آیت اللہ سیستانی کے فتووں کی وجہ سے اس خطرناک فتنے کا خاتمہ کردیا گیا ہے ۔


انہوں نے مزید لکھا کہ داعشی دہشت گردوں کو شکست دینے میں عراق کی الحشد الشعبی کے جوان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے جوانوں اور سید حسن نصراللہ کی مدبرانہ قیادت نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔اسلامی جمہوری ایران کے صدر، پارلیمان کے اعلی عہدہ داران، وزارت دفاع، اور ملک کی تمام دفاعی، سیکیورٹی اور عسکری تنظمیں لائق تحسین ہیں۔


جنرل سلیمانی اپنے پیغام کے آخر میں کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں:


بندہ حقیر عالی جناب کی خدمت میں ایک ادنٰی سپاہی کی حیثیت سے اعلان کرتا ہے کہ شام کے علاقے البوکمال کی آزادی کے بعد اب پورے عراق و شام سے داعشی دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے لہذا میں عراق، شام، لبنان، پاکستان اور افغانستانی شہدا اور مجاہدین کی نیابت میں جناب عالی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی غیور عوام، عراق اور شام کی مظلوم عوام اور تمام عالم اسلام کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں۔


اس خط کے جواب میںآیت اللہ خامنہ ای نے کچھ یوں جواب تحریر فرمایا ؛


سردار قاسم سلیمانی کی ذات کس قدر اہم تھی اور ایرانی قوم اور رہبر معظم کی نظر میں ان کی کیا حیثیت تھی اس بات کا اندازہ رہبر معظم کے اس خط سے لگایا جاسکتاہے ۔جو انھوں نے قاسم سلیمانی شہیدکے اس خط کے جواب میں لکھا جس میں داعش کی نابودی پر انھیں مبارکباد دی گئی تھی۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم


اسلام کے پرافتخار جنرل اور مجاہد فی سبیل اللہ کمانڈر حاج قاسم سلیمانی دام توفیقاتہ


اپنی پوری طاقت کے ساتھ خداوند تبارک و تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کے مختلف سطح کے عظیم مجاہد دوستوں کی جانثارانہ محنتوں کے نتیجے میں یہ برکت ہمیں نصیب ہوئی کہ اس دنیا کی طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں کا لگایا ہوا شجرہ خبیثہ، آپ جیسے نیک بندوں کے ذریعے شام اور عراق میں اپنی نابودی کو پہنچ چکا ہے ۔ یہ صرف داعش جیسے بدنام ظالم گروہ پر ایک کاری ضرب نہ تھی، بلکہ (اس) خبیث سیاست پر ایسی محکم ضرب تھی کہ جس کا ہدف اس خطے میں داخلی جنگ کو وسعت دینا اور صیہونی حکومت کے مقابلے میں ہونے والی مزاحمت (مقاومت) کو نابود کرنا تھا۔ انہوں نے ان ظالم گمراہ گروہوں کے لیڈروں کے ذریعے خطے کی خود مختار حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ یہ امریکہ کی سابقہ اور موجودہ حکومت اور ان کی خطے میں موجود اتحادی حکومتوں پر ایک کاری ضرب تھی کہ جنہوں نے مل کر اس گروہ کو بنایا اور ان کی مکمل حمایت کی، تاکہ اپنی نحس طاقت کو مغربی ایشیا کے علاقے تک پھیلا سکیں اور اس طریقے سے غاصب صیہونی حکومت کو اس علاقے پر قابض کر دیں۔


آپ نے اس مہلک سرطانی ناسور کو تباہ کرکے نہ صرف دنیائے اسلام بلکہ پوری انسانیت اور تمام اقوام کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔ یہ خدا کی مدد تھی اور آپ کا یہ کام اس آیت) "و ما رمیتَ اذ رمیت و لکن اللہ رمی)" کا مصداق تھا کہ جو آپ اور آپ کے مجاہد دوستوں کو ان کی دن رات کی محنت کے بدلے انعام دیا گیا۔ میں انتہائی محبت سے آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تاکید بھی کرتا ہوں کہ دشمن کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔ جنہوں نے ایک عظیم سرمایہ کو خرچ کرکے اس خطرناک سازش کو تیار کیا، وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ ان کی کوشش ہوگی کہ اس فتنہ کو خطے کے کسی اور حصہ میں شروع کریں یا کسی اور شکل، نئی صورت اور نئے انداز میں اسی کام کو دوبارہ انجام دیں۔ اپنے حوصلہ کو بلند رکھنا، ہوشیار رہنا، وحدت کو پامال نہیں ہونے دینا، تمام خطرناک بچ جانے والے عناصر کا خاتمہ، بصیرت افزا فرہنگی کام اور خلاصہ، ہر قسم کی ضروری تیاری (انجام پائے اور ان مسائل) سے غفلت نہ برتی جائے ۔ آپ کو اور عراق، شام اور دوسرے ممالک کے تمام مجاہدین کو خدا کے سپرد کرتا ہوں، آپ سب کو سلام پیش کرتا ہوں اور آپ کیلئے دعاگو ہوں۔


قاسم سلیمانی (1957-2020ئ) ایران کے سپاہ قدس کے سربراہ تھے ۔ ایران عراق جنگ میں آپ 41 برگیڈ (ثار اللہ) کی قیادت کر رہے تھے ۔جنرل قاسم سلیمانی سنہ 2001ئ میں جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حکم سے سپاہ قدس کے سپہ سالار منصوب ہوئے ۔ عراق اور شام میں داعش کے ظہور کے بعد قاسم سلیمانی نے سپاہ قدس کے کمانڈر کی حیثیت سے ان ملکوں میں حاضر ہو کر عوامی رضاکار فورسز کو منظم کرکے ان کا مقابلہ کیا۔ سلیمانی 3 جنوری سنہ 2020ئ کو بغداد ایر پورٹ کے قریب امریکی حملے میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوئے ۔24جنوری 2011ئ میں آپ میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔



ایران کے جنوب مشرق میں واقع جغرافیائی لحاظ سے ملک کے سب بڑے صوبے کرمان سے تعلق رکھنے والے قاسم سلیمانی 9 فروری 1957ئ کو پیدا ہوئے ۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے اپنے والد حسن سلیمانی کا ہاتھ بٹانے کے لئے مزدوری شروع کی۔ واٹر بورڈ میں ملازمت ملنے کے بعد کرمان شہر میں منتقل ہوئے ۔ شہید سلیمانی سے سات سال چھوٹے بھائی سہراب سلیمانی کے مطابق قاسم سلیمانی ورزش اور باڈی بلڈنگ کے شوقین اور کراٹے میں بلیک بیلٹ رکھتے تھے ۔ انہوں نے کرمان شہر سے 180 کلومیٹر دور آبائی قصبے قنات ملک میں جوانوں کے لئے باڈی بلڈنگ کلب تعمیر کروایا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران وہ مشہد کے رضا کامیاب نامی عالم دین سے آشنا ہوئے جنہوں نے ان کو انقلابی سرگرمیوں میں شامل کیا۔ ان کے بھائی سہراب سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کرانے والوں میں سے تھے ۔


22 ستمبر 1980ئ کو صدام کی جانب سے ایران پر جنگ مسلط کرنے کے بعد کچھ عرصہ کرمان ائیرپورٹ پر سکیورٹی کے فرائض انجام دیئے ۔ جنگ شدت اختیار کرنے پر فقط چھے ہفتے فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد کرمان کے 300 جوانوں پر مشتمل قافلے کے ساتھ جنوبی سرحدوں کی جانب چل دیئے ۔


قاسم سلیمانی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سنہ 1980ئ کو سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی میں بھرتی ہوئے اور ایران عراق جنگ کے دوران کرمان میں کئی بٹالین کو جنگی تربیت دے کر مورچوں کی طرف روانہ کیا۔ مختصر عرصے کے لئے انہوں نے سپاہ قدس کے آذربایجان غربی برگیڈ کی کمان سنبھالی۔


جنرل سلیمانی سنہ 1981ئ کو سپاہ پاسداران کے اس وقت کے سپہ سالار، محسن رضایی کے حکم سے سپاہ قدس کے 41ویں برگیڈ ثاراللہ کے سربراہ منصوب ہوئے ۔ ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران مختلف آپریشنز من جملہ والفجر 8، کربلا 4 اور کربلا 5 نامی آپریشن کے کمانڈروں میں شامل تھے ۔عملیات کربلا 5 ایران، عراق جنگ کی سب سے اہم آپریشنز میں سے تھی جو عراق کی بعثی حکومت کی سیاسی اور فوجی طاقت کو کمزور کرنے اور ایران کی فوجی قدرت میں اضافہ کے باعث بنی۔جنرل سلیمانی ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد سنہ 1989ئ کو دوبارہ کرمان واپس آئے اور ایران کے مشرقی باڈر سے ایران میں داخل ہونے ہونے والے دہشتگرد مسلح گروہوں کے ساتھ مقابلہ کیا۔ جنرل سلیمانی سپاہ قدس کی سربراہی پر منصوب ہونے سے پہلے ایران افغانستان کے باڈر پر منشیات سمگلینگ کرنے والے سمگلروں کے ساتھ برسر پیکار رہے ۔


جنرل قاسم سلیمانی کو 24 جنوری سنہ 2011ئ کو جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔


قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار کمانڈروں میں سے تھے ۔داعش ایک سلفی دہشتگر گروہ ہے جو عراق میں صدام کے سقوط کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی خلائ کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ ایران نے مشرق وسطی میں امن و امان کی بحالی کے لئے اس گروہ کے ساتھ مقابلہ شروع کیا۔ 2011ئ میں جنرل سلیمانی کی قیادت میں فاطمیون برگیڈ اور زینبیون برگیڈ نے داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے شام کا رخ کیا۔ سنہ 2014ئ میں عراق کے شہر موصل پر داعش نے قبضہ کیا اور جنرل قاسم سلیمانی نے عراق کی رضا کار فورس حشد الشعبی کو منظم کرتے ہوئے داعش کو عراق سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عراق کے اس وقت کے وزیر اعظم حیدر العبادی داعش کو شکست دینے میں عراق کے اصلی ترین اتحادیوں میں جنرل قاسم سلیمانی کا نام لیتے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کے 21 نومبر سنہ 2017ئ


کو ایران کے داخلی اخبارات میں شائع ہونے والے خط میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں داعش کی نابودی کا اعلان کیاگیا اور عراقی کی سرحد پر واقع شام کے البوکمال نامی شہر میں شام کا پرچم لہرانے کی خبر دی گئی۔اسرائیلی اخبار ہارتز، نے جنرل سلیمانی پر اسرائیل اور دنیا کے یہودیوں کے خلاف میزائل حملے کا الزام لگایا۔


10 مارچ سنہ 2019ئ کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے جنرل سلیمانی کو ایران کے سب سے اعلی فوجی اعزاز نشان ذوالفقار سے نوازا گیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے فوجی اعزاز دینے سے مربوط قانون کے مطابق یہ نشان ان کمانڈروں اور فوجی آفیسروں کو دیا جاتا ہے جن کی حکمت عملی مختلف فوجی آپریشنز میں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نشان دریافت کیا ہے ۔


جنرل قاسم سلیمانی 3جنوری 2020 کو ان کی گاڑی پر امریکی حملے میں عراق کے رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سپہ سالار ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ بغداد میں شہید ہوئے ۔

 
 
 

Comments


  • White Twitter Icon
  • White Facebook Icon
  • White Vimeo Icon
  • White YouTube Icon
  • White Instagram Icon

Copyright© 2019 by Shabbir Ahmad Shigri

bottom of page