محمود فرشچيان
محمود فرشچيان سن 1308 ہجري شمسي کو اصفہان ميں پيدا ہوئے- ان کے والد قالين کے تاجر تھے۔ اور قالين بافي کے فن ميں ماہر تھے-
اس مناسب ماحول ميں انہيں اپني فني صلاحيتوں کو نکھارنے کا موقع ملا اور يوں انہوں نے فن مصوري ميں کمال حاصل کيا -سکول جانے سے پہلے قالينوں کے نقشوں کو مدنظر رکھ کر مصوري کرتا تھا- آھستہ آھستہ مصوري ميںاسے کافي مہارت حاصل ہوئي- وہ خود اس بارے ميں کہتے ہيں:
مجھے ياد ہے جب ميں 4 سال کا تھا- زمين پر بيٹھا ہوا تھا اور قالين کے نقشوں کو کاغذ پر بنا رہا تھا- ميرے والد نے جب مجھے يہ کام کرتے ہوۓ ديکھا تو وہ بہت خوش ہو ۓ-فرشچيان سکول جانے کے زمانے ميں استاد مرزا آقا امامي اصفہاني کے پاس مصوري سيکھنے کاشائق بن گيا اور خوبصورت نقشوں کا عاشق ہوگيا - مرزا ماہر اور مشہور فنکار تھا- وہ کہتا ہے:" حاج مرزا آقا امامي نے مجھے سکھايا کہ کس طرح ہرن کي مصوري کروں اور مجھے کہا کہ اس کي مشق کرو- اگلے دن ميں نے 200 طرح کي مختلف سائزوں کي مصوري کي - استاد نے جب ميرا يہ کام ديکھا تو اسے ميرے اس کام پر يقين نہيں آ رہا تھا - پھر انہوں نے خوش ہو کر ميري حوصلہ افزائي کي -
ايسے فني امور ميں مصروف ہونے سے مجھے خوشي محسوس ہوئي - ساتويں جماعت کا طالب علم تھا کہ اصفہان کے ہنرستان ہنرہاي زيبا ميں داخل ہوا اور چار سال کے عرصے ميں اس فضا ميں استاد عيسي بہادري کے پاس تلمذ کيا- استاد بہادري قالين کي مصوري، ، آئل پينٹنگ کے فن ميں ماہر استاد تھا- فرشچيان نے اس کے پاس روايتي نقوش کي مصوري کے اصولوں کو سيکھا-
اس بات ميں کوئي شک نہيں ہے کہ استاد عيسي بهادري نے محمود فرشچيان کي تخليقات کو چار چاند لگانے ميں اہم کردار ادا کيا - وہ کہتے ہيں کہ ان کا استاد ہميں بہت سخت مشق کرواتا تھا اور استاد کي کوشش ہوتي تھي کہ ہم مصوري کرنے کے بعد خود ہي اس ميں خاميوں کو تلاش کريں - جب شاگرد خود خاميوں کو تلاش کرنے ميں کامياب ہو جاتا تو اس بارے ميں شاگرد کي مزيد رہنمائي کرتا -
استاد کو اس بات کا اچھي طرح ادراک تھا کہ جذبات کا اظہار اور عواطف کا تصور کيسے کيا جاتا ہے - انہوں نے اپنے مضامين ، مواد اور ساخت ميں ايک ربط قائم کيا اور يہ وہ خصوصيات تھيں جو ان کي مصوري کي نماياں خوبياں بن گئيں -
وه اصفہان کے تاريخي آثار ( چہل ستون، عالي قاپو، مسجد شيخ لطف اللہ اور ---) کے مطالعے ، اسليمي اور ختائي نقشے بناتے ہوۓ زيادہ حوصلہ افزائي حاصل کرتا تھا اور محقق کي طرح ان نقوش کا غور سے مطالعہ کرتا تھا-
سن 1329 ہجري شمسي ميں ھنرستان ھنر ھاي زيبا اصفہان ميں 6 سال کام کرنے اور ہنر کي تعليم حاصل کرنے کے بعد انٹرميڈيٹ کے ليۓ نائل چلے گۓ - يہاں پر ان کے گزرے ہوۓ وقت کي يادگار چيزيں اب بھي موجود ہيں - يہاں پر تعليم مکمل کرنے کے بعد وہ يورپ چلے گۓ اور کئي سال تک وہاں پر تعليم حاصل کرنے اور کام کرنے ميں مصروف رہے - انہوں نے خود لکھا ہے کہ وہ ہر روز سب سے پہلے اپني کتابوں کا بيگ اور قلم لے کر ميوزيم ميں جاتا اور سب سے آخر ميں اس ميوزيم سے باہر نکلتا -
ايران ميں واپسي کے بعد فرشچيان وزارت فنون لطيفہ ميں کام کرنے لگا اور تہران يونيورسٹي کے فنون لطيفہ کالج ميں پڑھانے کے لئے منتخب ہوا-
محمود فرشچيان ان دنوں امريکي ميں رہتے ہيں اور کبھي کبھار ايران آتے ہيں -
حال ہي ميں ان پر ايک ڈاکومنٹري فيلم بھي بنائي گئي جس کا نام "عشق پرواز" ہے اس فلم کا ڈائريکٹر ہادي کاوياني ہے-
وه رنگوں کي جان پہچان اور ان کے استعمال ميں بہت ماہر تھے - قلم کے زور پر وہ مشہور فن کار بن گۓ -
استاد اپنے آثار کو مضمون اور مواد کے لحاظ سے زيادہ تر عرفاني ادب اور مذہبي عقائد کے زير اثر رکھتے اور آج استاد فرشچيان وه فن کار ہے جس نے پچاس سال کے لگ بھگ مصوري ميں مہارت حاصل کي اور يقينا اسے ايراني مصوري ميں خاص انداز کا منفرد مصور کہا جا سکتا ہے -
جاری ہے
ترجمہ: آنا حمیدیا
استاد محمد حسین بہزاد
ایرانی منی ایچر کو نئی جہتیں بخشنے والا مصور
تحریر: ثمینہ عارفہ
استادبہزادنے سرزمین ایران کی قدیم ،پر شکوہ اور عظیم تہذیب ، قومی د استانوں اور مشاہیر کو اپنی حیرت انگیز، خوبصورت خطوط اور خیال انگیزی سے ان کی خوبصورتی کو تصویری شکل میں ڈھا ل کردوام بخشا اور منی ایچر کے ھنر کو سالہاسال کی قید و بند سے رہائی دلا کر ، جدیدیت بخشی ۔بہزادرنگوں کے استاد تھے اور ان کی آمیزش سے خوبصورتیاں تخلیق کرتے اور ان کی نگاہ فطرت کوجیسی دیکھتی اس کو تصویر ی شکل دے دیتے۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
’’منی ایچر ، مصوری کی شاعری ہے اور ایک منی ایچر مصور کی ذمہ داریوں میں سے اہم ترینذمہ داری زندگی کی خوبصوریتوں کو پیش کرنا ہے ایک مصور فطرت کے مناظراور مختلف شکلوںکے امتزاج سے ایک فن پارہ تخلیق کرتا ہے، لیکن منی ایچر مصور خوبصورتیوں کو کشف کرتا ہے اور اس کو خوبصورت ترین شکلوں میں ڈھال دیتا ہے۔ یعنی خوبصورتی کو اس کی کمال کی حد تکپہنچانا ہے اور اسی خوبصورتی کی کمال پر ایک پیکر تخلیق کرتا ہے۔
استاد بہزاد کی منی ایچر مصوری ان کے فارسی ادب کے وسیع مطالعے اور اس پر مکمل تسلط کی غمازی کرتی ہے۔ تصوف اور عرفان کے مختلف مراحل کو سمجھنے کے لیے انہوں نے سالہا سال حافظ اور خیام کے راستوں کی خاک چھانی ہے اور ان کے سینوں کی گرمی اور ان کے افکار کے تابناک شعلو ں کو اپنے اندر محسوس کیا اور اسی لئے ان کے فن پاروں میں سعدی کی حکمت، شاہنامہ فردوسی کی عظمت۔ نظامی کی بزم آرائی۔ حافظ کی غزلیات کاجوش اور خیام کی حیرت ، نمایاں ہیں۔ اس کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’میں اپنے اکثر کاموں میں حافظ خیام اور نظامی کی شاعری سے الہام لیتا ہوں کیونکہ میرا اعتقاد ہے کہ ان کی شاعری میں گہرائی اور وسعت ہے اور یہی گہرائی اور وسعت مصوری کو معنویت بخشتی ہے‘‘
استاد حسین بہزاد، اصفہان کے مشہور پیش امام میرزا لطف اللہ کے بیٹے میرزا فضل اللہ کے گھر ۱۲۷۳ھ ش / ۱۸۹۴م میں آنکھ کھولی یہ میرزا فضل اللہ کے تیسرے فرزند تھے۔ میرزا فضل اللہ اصفہان میں مصور اور قلمدان سازی کے فن پر عبور حاصل تھا اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ حسین چھ سال کی عر میں شرف مظفری سکول میں داخل ہوئے لیکن ایک بچہ جو ایک فنکارانہ ماحول میں بڑھا اور اپنے والد کے کارخانے میں قلمدانوں پر خوبصورت تصاویر بنتے دیکھتا رہا، جس کے گہرے نقوش اس کے دھن پر منقش ہو گئے تھے۔ ایک روز اپنے اسناد کی تصویر بنانے کی پاداش میں سبق یاد نہ ہونے کے بہانے سکول سے نکال دیئے گئے۔ اس کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بنایا:
’’چھ سال کی عمر میں ملک کے دوسرے بڑے سکول میں داخل ہوا اور اسی عمر سے ہی مصوری کا شوق میرے دل میں ایک چشمے کی مانند ابل رہا تھا۔ میں کاغذ اور رنگوں کے پیچھے بھاگتا، اپنی گم شدہ ذات کی تلاش میں رہتا۔ اس وقت میں خود بھی اس کا مطلب نہ سمجھتا تھا اور تشنگی مجھے فن مصوری کی طرف لے گئی۔ اور جب کاغذ اور پنسل ہاتھ میں لیتا تو یہ احساس پیدا ہوتا کہ گویا ایک پیاسا، صاف و شفات پانی تک پہنچ گیا ہے۔ اور سیراب ہو گیا ہوں۔ مصوری میرے وجود کا حصہ تھی اور مصوری سے اسی عشق اور والہانہ محبت سے جو بچگانہ تصاویر بناتا ان کو اپنی کتب یا ٹوپی میں چھپا کر سکول لے جاتا‘‘
حسین کوآٹھ سال کی عمر میں ان کے والد نے مصوری کے لیے ان کی بے قراری اور شوق کو دیکھتے ہوئے ، مجمع الصنایع لے گئے اور اپنے فنکار دوست آقا ملا علی قلمدان ساز کے سپرد کر دیا۔ اس زمانے میں حسین کو روزانہ اجرت چار شاہی ملنے لگی اور اس میں سے ایک شاہی کی رو ٹی خریدتے جن پر تمام دن گزارا کرتے اور باقی کے پیسوں سے کاغذ، پنسلیں اور رنگ خرید لیتے۔ کام کے دوران جب بھی چند لمحے فرصت کے ملتے تو ڈرائنگ کرنے لگتے۔ کاغذ اور پنسل ہر وقت جیب میں رکھتے اور گلی کوچے میں کوئی بھی نظارہ دل کو بھاتا وہیں کاغذ پنسل نکالا اور تصویر بنانے لگتے۔
اسی سال ایران میں ایک وبا کے پھوٹنے پر دو عزیز ہستیوں اپنے والد اور اپنے استاد کو کھو دیا اور وہ زندگی گزارنے کے لئے اپنے کام کوبیچنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر آپ ملا علی قلمدان کے ایک باصلاحیت شاگرد میرزا حسن پیکرنگار کے پاس کام کرنے لگے۔ باپ کے مرنے اور والدہ کے مجبوراً دوسری شادی کرنے کے نتیجے میں حسین بہزاد پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
استاد حسین بہزادنے دس سال تک میرزا حسین پیکر نگار کے پاس کام کیا اور رفتہ رفتہ ان کے کام کو شہرت ملنے لگی اور پیکر نگار کا کاروبار ترقی کرنے لگا ، بارہ سال کی عمر میں بڑے فن کار ان کو پہچاننے لگے اور خوبصورت قلمدانوں کے متلاشی ان کے پاس آنے لگے اور پیکر نگار خود بھی ایک مصور تھا لیکن خاص آڈر پر بنائے جانے والے قلمدانوں پر وہ حسین بہزاد سے ہی کام کرواتا تھا۔
اسی زمانے میں یورپ میں مشرقی مصوری خاص طور پر قدیم ایرانی مینی ایچر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی اور ایجنٹ لوگ جدید مصوری کے نمونوں کو کم قیمت میں خرید کہ قدیم منی ایچر کے فن پاروں کے نام پر نہایت مہنگے داموں فروخت کرتے اسی بازار میں حسین کے کام کے خریدار سب سے زیادہ تھے۔
اٹھارہ سال کی عمر میں حسین، پیکر نگار سے الگ ہو کر اپنا ذاتی کام کرنے لگے اس دور میں ایران اور یورپ میں ایران کے قدیم استاد رضا عباسی اور کمال الدین کے کام کے نمونوں کی بہت مانگ تھی۔ حسین بھی ان ہی کی تقلیدمیں فن پارے تخلیق کرنے لگے آپ نے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور اپنے فن پارے بیچ کر تنگدستی سے نجات پائی۔
استاد حسین بزاد ۲۲ سال کی عمر میں ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوئے کہ کام کرنے کے بھی قابل نہ رہتے۔ تمام تر جمع پونچی علاج معالجے پر خرچ ہو گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ استاد موت کے انتظار میں ایک کمرے میں پڑے رہے۔ اس وقت قسمت نے ساتھ دیا اور فتوح السلطنہ افشار تبریزی جو کہ منی ایچر فن سے خاص دلچسپی رکھتا تھا اور اس نے بہزاد کا نام سن رکھا تھااورجب اس کا کام دیکھا تو اس کی خداد داد صلاحیتیوں کا قائل ہو کر اس کی تلاش میں آیا۔ اس کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور علاج معالجہ کروایا۔ ایک ماہ کی مدت میں بہزاد رو بہ صحت ہوئے تو فتوح السطنہ تبریزی نے خمسہ نظامی کا ایک خطی نسخہ ان کو دیا اور کہا کہ اس کی مجلس کی تصویر کشی کرو میں نے تمام فنکاروں سے ایک ایک تصویر بنوائی ہے جس کا کام پسند آیا اس کو باقی تصاویر بھی بنانے کیلئے دوں گا ،جس کا اچھا معاوضہ ادا کروں گا، لیکن مجھے ابھی تک کسی کا کام پسند نہیں آیا۔ لہٰذا اب تم یہ کام کرو۔ حسین بہزاد نے ایک مجلس کی تصویری کشی کی تو اس کو بہت پسند آئی اور اس طرح پوری کتاب کی تصاویر کشی کا کام ان کو ملا جو کہ حسین بہزاد نے دن رات کی محنت سے ایک سال میں ۱۲۹۷ ھ ش میں مکمل کیا۔ اس دور میں رضاخان میر پنج (اتریاد) نے فتوح السطنہ کی رضامندی سے بہزاد کوقزا ق خانہ میں شامل کر لیا لیکن کہاں رنگ و برش کی حسین و دلفریب دنیا اور کہاں تیر و تلوار، تبر،ان کی مصورانہ طبیعت نے اس ماحول کو قبول نہ کیا اور وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور روپوش ہو گئے۔ فوج کے سپاہی کئی بار ان کی تلاش میں آئے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
۱۹۱۸ء میں ایران میں شدید قحط پڑا۔لوگ ایک روٹی کی خاطر اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ استاد بہزاد کہتے ہیں کہ اس دور میں ایک نان سنگک (ایران کا ایک خاص نان) کے مقابلے میں بیس افراد کی زندگی ارزاں تھی۔ اس قحط کی دہشت استاد کے احساسات اور جذبات پر اس حد تک اثر انداز ہو ئی کہ وہ اس کوکبھی فراموش نہ کر سکے اور زندگی اور موت کے کھیل کو اپنے تمام تر وجود کے ساتھ محسوس کر چکے تھے کہیں کوئی ایک نان کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور دوسری جانب کچھ لوگ ان کے خون کی قیمت پر یورپ میں سیرو تفریح کر رہے تھے۔ یہ صدمہ ان کو بے حال کر دتیا اور کہتے : ’’اس معاشرتی بی انصافی پر تف ہے‘‘
۱۲۹۷ھ ش میں خمسہ نظامی کی مجالس کی تصویر کشی مکمل کرنے پر فتوح السلطنہ نے اس کو اپنے ساتھ یورپ لے جانے کا وعدہ کیا۔ فتوح السلطنہ کا مقصد یورپ میں ان تصاویر کی فروخت اور بہزاد سے مصوری کے دوسرے کام بھی لیناتھا اس طرح بہزاد فتوح السلطنہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ رشت سے باکو اور پھر تفلیس پہنچے تیس روز بعد فتو ح السلطنہ کی نیت بدل گئی اور ان کو وہیں چھوڑ کر خود استنبول کے راستے پیرس اور پھر لندن پہنچ گیا اور لندن کے بریٹانیا میوزیم کو ایک قدیم اور نادر نسخے کے نام پر ۸۰۰۰ لیرہ میں ایک نقل تصویر بیچ دی اور اس میوزیم کے بڑے بڑے ماہرین نے بھی اس کو قدیم اصل نسخہ قرار دیا۔
تفلیس میں بہزاد تنہا رہ گئے اور ان کی زندگی تنگدستی میں گزرنے لگی۔ آخر ایک سبزی فروش کی مدد سے اپنی تصاویربیچ کر دو سال بعد ایران واپسی کے خرچ کا بندوبست کر سکے۔ بہزاد کی تفلیس سے واپسی کے بعد احمد شاہ کے دیوان خانے کے وزیر صدر الممالک نے بہزاد کو ایک خطی نسخہ دیا اور اس کی مجالس پر تصاویر بنانے کو کہا۔بہزاد ایک سال تک صدرالممالک کی دی ہوئی کتب میں تصویر کشی کرتے رہتے کچھ عرصے بعد وہ وفات پا گیا اور اس کے ورثہ نے وہ تمام کتب ردی میں فروخت کر دیں۔ ۱۳۰۸ ھ ش میں پروفیسر ارفع الدولہ جس کی مناکو میں ایک چھوٹی سی آرٹ گیلری تھی۔ وہ ایران آیا اور اس نے بہزاد سے درخواست کی کہ اس کے لیے ایرانی مصوری کرے۔ بہزاد ایک سال تک اس کے لیے کام کرتے رہے۔ اسی زمانے میں ایک شخص عبداللہ خان رحیم زادہ امریکا سے آیا اور چھ ماہ تک استاد سے مصوری کی تعلیم لیتا رہا اور اس نے استاد سے کہا ہر روز ایک منی ایچر مصوری میں اس کے لیے ایک تصویر بنائے جس کا معاوضہ تین تومان ہوگا اور اس نے ان فن پاروں سے قدیم نادر نسخوں کے نام پر ایک نمایش کا اہتمام کیا۔ جہاں ان فن پاروں کو فروخت کے لیے بھی پیش کیا۔ بہزاد سات سال تک اس کے لیے کام کرتے رہے۔ رحیم زادہ ان فن پاروں کو دوبار نمایش اور فروخت کے لیے امریکا لے گیا اور دوسری بار تمام تصاویر ایک خاتون کے ہاتھوں فروخت کر دیں اور اس خاتون نے بھی ان فن پاروں سے اپنی ذاتی آرٹ گیلری قائم کر لی۔ ۱۹۸۳ء میں وہ آرٹ گیلری اور اس کے تمام فن پارے نیلام کر دیے گئے۔
۱۳۱۰ ھ ش میں بہزاد کی تہران میں ایوب رب نوع ،نامی ایرانی Entique شناس اور آرٹ دوست شخص سے ملاقات ہوئی اور اس نے ۱۳۱۴ ھ ش میں بہزاد کے فن سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کو پیرس لے جانے کا وعدہ کیا۔ بہزاد کا بھی پیرس جانے کا مقصد کلاسیکی آرٹ کے ساتھ اس دور کے جدید آرٹ کی ترقی دیکھنا تھا۔ اس مقصد کے لیے رب نوع کو دوسوتومان اور ایک قیمتی قالین دیا اور ۱۳۱۴ ھ ش میں زمینی راستے سے یورپ روانہ ہوئے۔ رب نوع یورپ میں بہزاد کی آمد کو خفیہ رکھنا چاہتا تھا اور لہٰذا وہ جہاں بھی جاتا ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا۔ بہزاد ہفتے میں دو دن رب نوع کے لیے کام کرتا اور باقی وقت کسب معاش کے لیے رب نوع سے چھپ کر کچھ لوگوں کے لیے کام کرتا رہا ۔استاد بہزاد تیرہ ماہ تک پیرس میں رہے اور لودر گیمہ Guimet Meusum)) او ر و رسای میوزیم میں گھنٹوں یورپ کی کلاسیکل مصوری کے اصولوں کا مطالعہ کرتے وہاں کے بڑے بڑے فنکاروں کی مصورانہ ٹیکنیک کو سمجھا اور اس طرح قدیم مہارت اور نئے تجربات سے استاد نے مصوری میں ایک Styleکے موجد ہوئے اور ان کا کہنا ہے کہ:
’’ایران اور غیر ملکی (یورپی) مصوری میں مختلف Styles کے مطالعے کا مقصد ایک نئے Style کا اختراع تھا جو کہ ایرانی ہو اور نئے دور کے فن سے بھی مطابقت رکھتا ہو۔ منی ایچر مصوری قدیم نقل کی تقلید کی ناپسندیدہ ڈگر پر چل رہی تھی اور رفتہ رفتہ یہ کام ،ناپید ہو رہا تھا اور میری تمام تر کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا Style اپناؤں کہ ہمارا قومی فن ایک نئے انداز سے نئی زندگی پائے،،(۴)
یورپ کے سفر اور جدیدمصوری کے اصولوں کے مطالعے کے نتیجے میں بہزاد نے جومنی ایچر مصوری کا جدید تصور دیا وہ درحقیقت بہزاد کے اندر عجیب و غریب برپا ہونے والے انقلاب کا شاخسانہ تھا جس نے بہزاد کی فکر اور ذہنیت کو ایک نئی راہ سے روشناس کر دیا تھا۔
اس کے لیے استاد بہزاد کہتے ہیں ’’یہ سفر میری زندگی کا ایک نئے سورج کی طرح تھا۔ اس سفر کے دوران میری فکر روشن ہوئی اور میں نے خود پہچانا اور ا س کے بعد میرے ہاتھ ایک نئے جذبے اور قدیم احساسات کے ساتھ نئی تخلیقات وجود میں لائے....اور میری آج کی ترقی اور کامیابی میرے پیرس جانے کی مرہون، منت اور اس کے ساتھ ساتھ رب نوع کی میرے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی بہت موثر تھی‘‘(۵)
بہزاد تیرہ ماہ پیرس میں اقامت کے بعد وطن واپس آئے اور متفرق کام کرتے رہے اور دو سال بعد حاجی محتشم السلطنہ کے بیٹے ڈاکٹر حسینعلی خان اسفند یاری کی تجویز پر رباعیات خیام کی تصویر کشی کی۔ ڈاکٹر اسفند یار کو اس کام سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ شب و روز اپنے کھانے پینے اور آرام سے بے نیاز استاد بہزاد کے ساتھ ایک ایک رباعی کو کئی بار اور مختلف ردھم میں دہراتے اور استاد اس رباعی کے مفہوم کو اپنے اندر محسوس کرتے اور پھر اس رباعی کی تصویر کشی کرتے۔ اس طرح سات سال کی طویل مدت خیام کی رباعیات پرکام کرتے رہے اور تذہیب کے کام میں لطفی ان کی مدد کرتے اور بعض اوقات 62359 انچ کی ایک تصویر پر واٹر کلر اور آئل کلر دونوں سٹائل سے کام کرتے۔ وہ ان کا برش بلی کے گلے کے نچلے حصے کے پانچ بالوں پر مشتمل ہوتا۔ اسفند یاری نے ۱۳۳۶/۱۹۵۷ء میں اس کام کی نیویارک اور واشنگٹن میں نمائشوں کا اہتمام کیا جس کی ہر دیکھنے والے نے بلاجھجک تعریف کی۔
۱۳۲۵/۱۹۴۶ء میں استاد بہزاد ملک الشعرا بہار کی کوششوں سے ’’موزہ ایران باستان‘‘ ایران کے آثار قدیمہ کے میوزیم میں ماہانہ تین سو تومان پر کام کرنے لگے۔ جہاں ان کی ملاقات علی جلالی نامی شخص سے ہوگئی۔ جس نے استاد بہزاد کے تخلیقی عمل اور نایاب اور یادگار فن پارے تخلیق کرنے میں بہت معاونت کی۔ یہاں سے استاد بہزاد کی زندگی میں ایک نئے باب کا ضافہ ہوا۔
علی جلالی نے استاد بہزاد سے کہا ’’تم تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہو، آؤ آج کے بعد منفرد اور عظیم کام کرو اور اپنے فن کے شاہکار ،یادگار چھوڑ جاؤ۔ ایسا کام جو دوسروں سے بالکل مختلف اور منفرد ہو‘‘ استاد بہزاد نے اپنی زندگی کی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا ’’ایسے کام کے لیے وقت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ علی جلالی نے کہا تم جیسے خریدار چاہتے ہو ، میں ایسے ہی کام کا خریدار ہوں۔ میری زندگی میں جو کچھ ہے اس کو اپنا جانو !اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تمھاری زندگی کی تمام ضروریات تمہاری خواہش کے مطابق پوری کروں گا اور تمھاری خواہش کو پورا کرنے میں کوئی دریغ نہ کروں گا۔‘‘
اس دور میں علی جلالی کی حوصلہ افزائی سے استاد بہزاد نے فردوسی، ایوان مدائن، شب قدر، حافظ اور تیل کے موضوعات پر مصوری کی۔ جن کا شمار استاد کے بہترین فن پاروں میں ہوتا ہے۔ استاد بہزاد علی جلالی کے متعلق کہتے ہیں ’’میرا ایک بہترین دوست اور جس کے لیے میں اپنے تمام تر عشق کے ساتھ کام کرتا وہ علی جلالی ہے۔ میرے تمام تر فن پارے اس کے پاس محفوظ ہیں اور وہ ان کو فروخت نہیں کرتا‘‘ (۶)
کچھ عرصے بعد استاد وہاں سے ’’موزہ ھنرھای زیبا‘‘ گئے اور اپنے کام کو جاری رکھا۔ ۱۹۵۶ء میں تہران میں ابن سینا کے ہزار سالہ جشن کا اہتمام کیا گیا۔ علی جلالی نے سیمینار کے ہال میں استاد بہزاد کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیاسیمینارمیں پوری دنیا کے ۶۲ ممالک کے دانشور اور سکالرزشر یک ہوئے جن میں ترکی یونی ورسٹی کے تاریخ طب کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سہیل انور بھی شریک تھے جو کہ خود منی ایچر آرٹ کے معروف فنکار تھے۔ ڈاکٹر سہیل انور نے اپنے استنبول کے اخبار ’’وطن‘‘ میں استاد بہزاد کی شخصیت اور فن کے بارے میں ایک مقالہ لکھا جس میں کہا ’’بہزاد جیسے عظیم آرٹسٹ کا تعلق اب صرف ایران سے ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق پوری دنیا سے ہے،،۔
۱۹۵۵ء میں حکومتِ فرانس اور ایران و فرانس کلچرل سوسائٹی کی دعوت پر پیرس کے Modern Art میوزیم میں استاد بہزاد کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس میں فرانس کے وزیر ثقافت اور آرٹ کی دلدادہ معروف شخصیات اور اخباری نمائندوں نے شرکت کی اور استاد بہزاد کی مصوری کو داد تحسین دیتے ہوئے یادداشت کی کتاب میں لکھتے ہیں۔ ’’استاد بہزاد کے کام میں رنگ آمیزی نہایت تعجب انگیز ہے۔ خاص طور پر اکلیل سونے اور نیلے رنگ کی آمیزش یقیناًبی نظیر اور ہمارے لیے ایک نئی اختراع ہے۔‘‘
حسین بہزاد نے ۱۹۵۸ء میں امریکا میں کرسمس کارڈ کے ڈیزائن کے مقابلے میں شرکت کی اور ۶۰ مملک کے بڑے بڑے آرٹسٹوں کے درمیان حسین بہزاد اوّل انعام اور گولڈمیڈل کے حقدار پائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد بہزاد نے اپنی زندگی کے سفر میں منی ایچر کے ہزاروں فن پارے تخلیق کیے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہ عظیم فنکار تمام عمر مالی مشکلات سے نجات نہ پاسکا۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں ’’افسوس صد افسوس اپنے وہ تمام فن پارے جو کسب معاش کی خاطر فروخت کیے ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ گویا اپنے وجود کے حصے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بیچتا رہا تاکہ اپنی روز مرہ کی زندگی کو رواں رکھ سکوں اور میرے اہل خانہ کو سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر رہے‘‘ یہ غم مجھے مارے دیتا ہے کہ ان تمام فن پاروں میں سے میرے پاس صرف چند ایک بچے ہیں‘‘ (۷)
استاد بہزاد کے کئی دوستوں کی کوششوں سے ۱۳۴۷/۱۹۶۸ء میں آرٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ان کو افتخاری استاد کی ڈگری دی گئی۔ استاد حسین بہزاد کے شاگرد محمد ناصری پور اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں:
’’بہزاد نے ایرانی منی ایچر آرٹ کو جدیدیت بخشی۔وہ سالہاسال حافظ اور خیام کے افکار کی گرمی اپنے اندر سموتے رہے۔ اسی لیے ان کے آثار میں سعدی کی حکمت اور کلمات کی غمازی کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھو ں سے کچھی ہوئی ایک ایک لائین اس سرزمین کے عظیم و قدیم تہذیب اور قدیم افسانوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ بہزاد رنگوں کے شاعر ہیں اور وہ رنگوں کے امتزاج سے خوشی اور غمی کے احساسات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ استاد نے قدیم روش کو چھوڑ کر اطراف کی فروعی تفصیلات کو حذف کیا تاکہ تصویر کا موضوع اور اس کی خوبصورتی ماند نہ پڑے۔‘‘
استاد بہزاد موضوع کے انتخاب کو بھی مصوری کا لازمی جز قرار دیتے ہیں لہٰذا انھو ں نے اپنے ارد گرد اور روزمرہ زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا اور ایران میں قحط اور Black Goldیعنی تیل کے قومیا نے کے مسئلے کو نہایت خوبصورتی سے کینوس پر پیش کیا۔اس کے علاوہ بہزاد نے منی ایچر میں سیاہ کینوس پر سفید اور سفید پر سیاہ تصویر کشی کی اختراع کی۔
گرچہ استاد بہزاد کی ادبیات میں کوئی ڈگری نہ تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے ملک کے عظیم شعرا کی تصویر کشی میں نہایت کامیاب رہے اور مولانا جلال الدین بلخی، عطار نیشا پوری ، سعدی و ......... کے چہروں پر رنگوں کے امتزاج سے ان کے افکار کی گہرائی اور وسعت کو زبان مل گئی۔
ایران کے نامور شعراء نے استاد بہزاد کی شان میں شعر اور نظمیں کہی ہیں مثلاً
خداوند ہنر استاد بھزاد کہ نقش از خانہ بہزاد بہ زاد
ملک الشعرا بہار
آفرین بر قلمت ای بھزاد کہ بہ تصویر حمادی جان داد
استاد جلال الدین ہمایی
استاد کو ملنے والے انعامات و ایوارڈ:
۱۔وزارت فرہنگ ایران کی جانب سے اول انعام ۱۳۲۸ ھ ش /۱۹۴۹ م
۲۔ھاسینکی میں منعقدہ پندرہویں مصوری المپیاڈ میں بہترین مصور کا ایوارڈ ۱۳۳۲ / ۱۹۵۳م
۳۔بو علی سینا کے ھزار سالہ جشن میں ، بو علی میڈل ۱۳۳۳ / ۱۹۵۴ م
۴۔بیلجیم میں منعقدہ بین الاقوامی مصوری کی نمایش میں اعزازی سر ٹیفکیٹ
۵۔امریکہ کے شہر مینا پولیس میں بین الاقوامی مصوری کے مقابلے میں گولڈ میڈل ۱۹۵۸ م
اس مقابلے میں ۹۷ ممالک سے ۲۳۰ مصوروں نے شرکت کی اور اول انعام کے حقدار پائے
۶ ۔ ہنر ہای زیبا ی کشور ، میوزیم کی جانب سے گولڈ میڈل دیا گیا
۷۔استاد بہزاد کی زندگی کے آخری ایام میں ، آرٹ استاد کونسل کی جانب سے یونی ورسٹی کے استاد کی اعزازی ڈگری دی گئی ۱۳۴۷ / ۱۹۶۸ م
۸۔ ۱۹۵۱ سے ۱۹۶۸ م ( سال وفات ) میں استاد بہزاد ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ استاد کا مقام حاصل کر چکے تھے اور ان کے آثار کی نمائش ایران اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں ترتیب دی گئی تھیں ۔ جن میں سے چند قابل ذکر :
ایران : ہنر ھای زیبا کشور ( میوزیم ) خرداد ۱۳۳۱ ھ ش
انجمن ایران اور امریکہ کی جانب سے ۱۳۳۵ ھ ش
انجمن ایران و جرمنی کی جانب سے ۱۳۳۵ ھ ش
ایران کے شہر آبادان میں ۱۳۳۶ ھ ش
باشگاہ مہر گان آرٹ گیلری میں تقریباً ہر سال
قدیم ایران کے موزہ نوین ( جدید میوزیم) میں
لندن ۱۹۳۱ ء
بوسٹن ۱۹۳۳ ء
ماڈرن پیرس میوزیم ۱۹۵۵ء
پراک ( چیکو سلواکیہ ) ۱۹۵۶ ء
ورشو ( لھستان ) ۱۹۵۶ ء
ہند وستان اورجاپان
واشنگٹن لائبریری ۱۹۵۶ ء
نیو یارک ۱۹۵۶ء
بروکسل کی بین الاقوامی نمائش میں شرکت ۱۹۵۸ ء
حوالہ جات :
۱۔ محمد ناصری پور، آفرین بر قلمت ای بہزاد ، سروش ، تہران ۱۳۷۸ ھ ش
۲۔ ایضاً
۳۔ایضاً
۴۔ ساعتی با استاد ’’ ہنر و مردم ،، دورہ سوم شمارہ ۳۴ ، (۱۳۴۲ ھ ش) ص۴۴
۵۔ ایضاً
۶۔ گفتگو با استاد حسین بہزاد ۹ فروردین ۱۳۴۷ ھ ش
۷۔ ایضاً