top of page
فردوسی

حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی

 

حکیم ابوالقاسم حسن پور علی طوسی معروف بہ فردوسی دسویں صدی عیسوی (چوتھی صدی ھجری) کے نامور اور معروف فارسی شاعر جو 940ء (329 ھ) میں ایران کے علاقے خراسان کے ایک شہر طوس کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور 1020ء (410ھ) کو اسی سال کی عمر میں وہیں فوت ہوئے۔ بعض روایات میں آپ کا سالِ وفات 1025ء (416ھ) اور عمر پچاسی سال بھی ملتی ہے۔ آپ کا شاہکار شاہنامہ ہے جس کی وجہ سے آپ نے دنیائے شاعری میں لازوال مقام حاصل کیا۔

حالات زندگی

شاہنامہ

شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے یا کارنامے بنتا ہے، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً 1000ء میں لکھی۔ اس شعری مجموعہ میں “عظیم فارس“ کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہنامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لاجواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔

  شاہنامہ کی ادبی اہمیت۔

عربوں کی فتح کے بعد رفتہ رفتہ عربی زبان ایران کےطول و عرض میں رائج ہوگئی اور ایران کی اپنی زبان فارسی قصہ ماضی بن کر رہ گئی ۔آخر جب خلافت عباسیہ میں ملکی حکومتیں قائم ہوئیں تو فارسی زبان کا بھی احیاء  ہوا۔ فردوسی نے اس دور میں خالص وطنی  نقطہ نظر سے ملکی تاریخ شاہنامہ کی صورت میں مرتب کی اور اس طرح ایران کی زبان اور قومی تاریخ دونوں کو ایک نئی زندگی بخشی ۔عربوں کے عہد خلافت میں جو فارسی لکھی جاتی تھی اس میں بیشتر الفاظ عربی کے ہوتے تھے۔

فردوسی کے نزدیک غالبا ایسے الفاظ عرب غلبے کا نشان تھے۔اس لئے اس نے کوشش کی کہ ان الفاظ سے اجتناب کیا جائے چنانچہ اس نے عربی کے الفاظ وہیں استعمال کیئے ہیں جہاں ان کا استعمال نا گزیر تھا۔ گویا فردوسی نے فارسی زبان کو سہل، روان اور خالص ملکی زبان کی صورت میں پیش کرکے آنے والے ادیبوں کے لئے ایک نئی شاہراہ کھول دی۔ ذیل کے اشعار آغاز آفرینش اور عناصر کی ترتیب کے متعلق ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ فردوسی نے کس طرح عربی کے الفاظ دانستہ چھوڑ کر فارسی کے الفاظ استعمال کئے ۔

از آغاز  باید کہ دانی درست                              سرمایہ گوہران از نخست

 

 

 

 

 

 

 

ابن سینا

ابتدائحالات

صفر 370 ہجری 980ء عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں “افنشہ” میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد “بلخ” (موجودہ افغانستان) سے آئےتھے، بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (موجودہ ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کوسلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی، بخارہ میں دس سال کیعمر میں قرآن ختم کیا، اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور انمیں کمال حاصل کیا،

 

حالات زندگی

سلطان بخارا نوح ابن منصور بیمار ہو گئے۔ کسی حکیم کی دوائی کارگر ثابت نہ ہو رہی تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سےتمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، ابن سینا جیسے کم عمر اور غیر معروف طبیب کی دوائی سے سلطان صحت یاب ہوگئے۔ چنانچہ سلطان نے خوش ہوکر انعام کے طور پر انہیں ایک لائبریری کھول کر دی تھی، بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمدان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے، اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری ۔

آخری ایام

ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا، کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ “قولنج” کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے، اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا.

 

علمی خدمات و کارہائے نمایاں

بو علی کا حافظہ بہت تیز تھا۔ جلد ہی سلطان نوح بن منصور کا کتب خانہ چھان مارا اور ہمہ گیر معلومات اکٹھی کر لیں۔ اکیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی۔ ایک روایت کے مطابق بو علی سینا نے اکیس بڑی اور چوبیس چھوٹی کتابیں لکھی تھیں۔ بعض کے خیال میں اس نے ننانوے کتابیں تصنیف میں لائیں۔

علمی خدمات

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم

اس میں منطق، لغت اور شعری تصانیف شامل ہیں.

نظری علوم

اس میں طبیعیات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں.

عملی علوم

اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصانیف شامل ہیں.

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصانیف ہیں

ریاضی کی کتابیں

ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں:

  • رسالہ الزاویہ،

  • مختصر اقلیدس،

  • مختصر الارتماطیقی،

  • مختصر علم الہیئہ،

  • مختصر المجسطی،

  • اور “رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء” (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے.

طبیعیات اور اس کے ذیلی علوم

  • رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)،

  • رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)،

  • اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)،

  • رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)،

  • رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ).

 

ہزار سالہ تقریبات برائے بو علی سینا پر GDR جوبلی یادگار ٹکٹ پر بو علی سینا کی تصویر

طبی کتب

ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف “کتاب القانون” ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی، ان کی دیگر طبی تصانیف یہ ہیں:

  • کتاب الادویہ القلبیہ،

  • کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ،

  • کتاب القولنج،

  • رسالہ فی سیاسہ البدن وفضائل الشراب،

  • رسالہ فی تشریح الاعضاء،

  • رسالہ فی الفصد،

  • رسالہ فی الاغذیہ والادویہ،

  • ارجوزہ فی التشریح،

  • ارجوزہ المجربات فی الطب،

اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی

  • “الالفیہ الطبیہ”.

موسیقی

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصانیف یہ ہیں:

  • مقالہ جوامع علم الموسیقی،

  • مقالہ الموسیقی،

  • مقالہ فی الموسیقی.

اہم تصانیف

  • کتاب الشفاء

  • القانون فی الطب

  • اشارات

تاثرات

 

یورپ میں انکی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

عمر خیام

غالباً دنیا کے کسی اور شاعر کا اتنی زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا گیا جتنا عمر خیام کا

عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ تاہم جدید دور میں شاعر عمر خیام نے عالم عمر خیام کو بہت  پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آج ان کا نام دنیا کے مشہور ترین شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام، جب کہ 1980ء میں ایک سیارچے کا نام عمر خیام کے نام پر رکھا گیا۔ 

یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام عمر خیام کے اقتباسات پر رکھے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خیام کو زمانہ آج شاعر کی حیثیت سے جانتا ہے لیکن اس کے اپنے دور میں اور بعد میں کئی صدیوں تک انھیں ایک نابغہ ٴ روزگار عالم کی حیثیت سے زیادہ شہرت حاصل تھی۔ 

شبلی نعمانی اپنی کتاب شعر العجم میں لکھتے ہیں کہ خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہم سر اور مذہبی علوم اور فن و ادب اور تاریخ میں امامِ فن تھا۔ جب کہ جی سارٹن نے اپنی سائنس کی تاریخ کی کتاب میں خیام کو ازمنہ ٴ وسطیٰ کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا ہے۔ ویسے تو خیام کی اکا دکا رباعیاں کئی تذکروں اور دوسری کتابوں میں بکھری ہوئی مل جاتی ہیں، 

ان کا رباعیات کا پہلا نسخہ 1423ء میں مرتب ہوا، یعنی خیام کی وفات کے تقریباً تین سو برسوں بعد۔ اس کی وجہ سے مسائل یہ پیدا ہوئے کہ  خیام کے نسخوں میں بہت سی رباعیاں ایسی بھی شامل ہو گئیں، جو اس کی کہی ہوئی نہیں تھیں۔

جدید دور میں اس موضوع پر بڑی دادِ تحقیق دی گئی ہے لیکن خیام کی رباعیوں کا اب تک کوئی غیر متنازعہ نسخہ سامنے نہیں آیا۔ خیام کے مشہور ایرانی محقق ڈاکٹر صادق ہدایت نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ایسی رباعیوں کی تعداد صرف 15 ہے جن کے بارے میں مکمل یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ خیام کی ہیں۔ جب کہ دوسرے اصحاب کے ہاں اس تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ 

خیام کی بین الاقوامی شہرت کا زیادہ تر دار و مدار انگریز شاعر ایڈورڈ فٹز جیرالڈ کے اس ترجمے پر ہے جو اس نے رباعیاتِ عمر خیام کے نام سے 1859ء میں کیا۔ اس ترجمے کو انگریزی شاعری کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نہ صرف انگریزی شاعری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقل کی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ 

آکسفرڈ ڈکشنری آف کوٹیشنز میں اس کتاب سے 130 اقوال درج کیے گئے ہیں۔  یہ وہ کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد خیام کی شہرت جنگل کی آگ کی طرح چار دانگِ عالم میں پھیل گئی اور اس ترجمے کے ترجمے دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ خیام کے کئی اردو مترجمین نے بھی اصل فارسی کی بجائے اسی ترجمے کو مدِ نظر رکھا۔ 

   لیکن خیام کا سب سے پہلا ترجمہ اس وقت ہوا جب فٹزجیرالڈ نے خیام کا نام بھی نہ سنا ہو گا۔ راجا مکھن لال دربارِ دکن سے وابستہ تھے اور نظام نصیر الدولہ نے انھیں راجہ کا خطاب عطا کیا تھا۔ مکھن لال نے 1842ء میں رباعیاتِ خیام کا ترجمہ کیا، یعنی فٹزجیرالڈ سے 17 برس قبل۔ اس ترجمے کے دیباچے میں راجا صاحب فرماتے ہیں: 

اس نومشقِ سخن، خوشہ چینِ اربابِ کمال راجا مکھن لال کو مدت سے تمنا یہ تھی کہ عند الفرصت اپنے ترجمہ فارسی رباعیات حضرت عمر خیام کا کہ اس بزرگ کے کلام میں سراسر معرفت اور حقیقت روشن کرتے ہیں، خلاصہ اس کا زبانِ ریختہ میں موافق اپنی استعداد کے رشتۂ تحریرِ نظم میں لاوے۔ (دکن میں اردو، نصیر الدین ہاشمی۔ نظامِ دکن پریس۔)

فٹزجیرالڈ کے ترجمے کی طرح راجا صاحب کا ترجمہ بھی خاصا آزاد ہے جس کی وجہ سے ان کی اردو رباعیوں کو خیام کی رباعیوں سے ملانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ایک رباعی ملاحظہ کیجیئے: 

 

ہو فصلِ بہار میں وہ حور سرشت 

یک کوزۂ مے پاس ہو اور ہو لبِ کشت

واللہ نہ پھر خیالِ جنت آوے 

سمجھیں گے اس کو دوست گلزارِ بہشت

        

یہ رباعی ہے جو فٹزجیرلڈ کے ترجمے کی مشہور ترین رباعیوں میں سے ایک ہے: 

 

Here with a Loaf of Bread beneath the Bough,

A Flask of Wine, a Book of Verse -- and Thou

   Beside me singing in the Wilderness -- 

And Wilderness is Paradise enow

 

راجا صاحب کی چند اور رباعیاں دیکھیئے، جس میں انھوں نے سبکِ ہندی عناصر کو بھی ملا لیا ہے:

 

پہلے غمِ ہجر گرمیِ محفل تھا

چندے برکابِ شوقِ ہم منزل تھا

اے یار اب آ کے دیکھ تربت کو مری

یہ مشتِ غبار کچھ دنوں میں دل تھا

 

 

افسوس کہ غم میں یہ جوانی گزری

یک دم نہ کبھی یہ شادمانی گزری

اب پیری میں ہو گی کیا عبادت ہم سے

بے یادِ خدا کے زندگانی گزری

 

عمر خیام کی ایک اور رباعی مصور کی نظر میں

جیسا کہ راجا مکھن لال کی مثال سے واضح ہے، ہندوستان میں عمر خیام کو زمانۂ قدیم ہی سے اہم مقام حاصل رہا ہے۔ شہنشاہ اکبر کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ حافظ کے دیوان کے حواشی پر رباعیاتِ خیام تحریر کی جائیں۔ 

اب ہم چلتے ہیں جنوری 1960ء میں شائع ہونے والے ایک ایسے ترجمے کی طرف جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس میں مترجم خالق سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ترجمہ پروفیسر واقف مراد آبادی نے کیا تھا اور اس قدر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ چند مہینوں کے اندر اندر اس کے چار ری پرنٹ  شائع کرنا پڑے۔

پروفیسر واقف کی کتاب کے پیش لفظ میں پی یو کیمپ کالج دہلی کے وائس چانسلر دیوان آنند کمار نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس کتاب میں: 

"خیام کی روح ہر جگہ نظر آتی ہے بلکہ اکثر مقامات پر شگفتگی اور بے ساختگی خیام کو آئینہ دکھاتی نظر آتی ہے۔" 

واقف کے ترجمے کی چند مثالیں دیکھیئے: 

 

ہے جام سے وابستہ جوانی میری 

یہ مے ہے کلیدِ کامرانی میری 

تم تلخ بتاتے ہو تو کچھ عیب نہیں 

تلخ تو ہے عین زندگانی میری 

 

پلا تو دے میرے ساقی نئی بہار کے ساتھ 

عبث الجھتا ہے اس زہد کے سہار کے ساتھ 

اجل ہے گھات میں دن زیست کے گزرتے ہیں 

شرابِ ناب ہے موجوں میں بزمِ یار کے ساتھ 

 

ترجمہ برا نہیں لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس میں وہ وارفتگی اور سرمستی مفقود ہے جو خیام کا خاصہ ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ رباعی کے فن میں آخری مصرع پنچ لائن کا حکم رکھتا ہے، اور رباعی کے بقیہ مصرعے گویا اس پنچ لائن کے لیے فضا تیار کرتے ہیں، لیکن واقف صاحب کے بعض ترجموں میں آخری مصرعے تک آتے آتے رباعی کی سانس پھول جاتی ہے۔ 

رباعی چوں کہ ایک انتہائی مشکل فن ہے، اور اس کی فنی نزاکتوں اور باریکیوں پر ہر کوئی قادر نہیں ہو سکتا، اس لیے اب ہم چلتے ہیں خیام کے ایک ایسے مترجم پر جو خود رباعی کے مستند استاد تھے۔ میرا اشارہ ہے خانوادہٴ غالب سے تعلق رکھنے والے شاعر صبا اکبر آبادی کی جانب۔ 

 

خیام کی ایک بہت خوب صورت رباعی ہے:

خیام کی ایک رباعی صبا کا ترجمہ

اين يک دو سہ روز نوبت عمر گذشت ہے مدتِ عمر بس دو روزہ گویا

چون آب بجوے بار و چون باد بدشت ندی کا سا پانی ہے کہ صحرا کی ہوا

ہرگز غم ِ دو روز مرا ياد نگشت دو دن کا کبھی غم نہیں ہوتا ہے مجھے

روز ی کا نيامده ‌ست و روز ی که گذشت اک دن جو نہیں آیا ہے، اک دن جو گیا

 

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صبا نے بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے لیکن یہ رباعی خیام کی اعلیٰ ترین رباعیوں میں شمار کی جاتی ہے اور اس میں جو زبردست نغمگی  ہے، اس کا جواب صبا کے پاس نہیں ہے۔

صبا 

 

وہ جام جو تازہ جوانی دے دے

اس جام کو بھر کے یارِ جانی دے دے

لا جلد کہ ہے شعبدہ دنیا ساری

ہو جائے گی ختم یہ کہانی، دے دے

 

صبا کا یہ ترجمہ نسبتاً بہتر ہے لیکن اس میں بھی وہ چستی اور بے ساختگی نہیں جو فارسی رباعی سے چھلک رہی ہے۔ 

 

شاعری کا ترجمہ کرنا پلِ صراط پر چلنے سے کم نہیں۔ اس راہ پر چلتے چلتے بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں، چنانچہ داغستان کے ملک الشعرا رسول حمزہ توف کا قول مشہور ہے کہ شاعری کا ترجمہ قالین کا الٹا رخ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نثر کے برعکس شاعری میں زبان صرف خیالات کی ترسیل کے آلے کا کام نہیں کرتی بلکہ زبان بذاتِ خود شاعری کا حصہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ترجمے میں صرف مطلب ہی منتقل ہو سکتا ہے، خود زبان پیچھے رہ جاتی ہے۔ اسی لیے بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ادب کا ترجمہ کسی اور زبان میں ناممکن ہے۔ 

 

تاہم اردو مترجمین کو ایک سہولت یہ حاصل ہے کہ وہ اپنے تراجم میں فارسی کی لفظیات کو کسی حد تک برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں سے کئی کی کوششیں کچھ زیادہ سودمند ثابت نہیں ہو سکیں۔ میں ذیل میں ایسی ہی چند کاوشوں کو ایک ایک رباعی کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے خیام کی رباعی دیکھیئے:

خیام کی ایک رباعی فٹزجیرلڈ کا ترجمہ

خورشید کمند صبح بر بام افگند Awake! for the morning in the bowl of night 

کیخسروئی  روز بادہ در جام افگند Has flung the stone that puts the stars to flight 

می خور کہ ندای عشق ہنگام سحر And lo! the Hunter of the East has caught 

آوازہ ٴ ’اشرا بوا‘ در ایّام افگند The Sultan"s Turret in a noose of light

   

یہ ترجمہ اصل سے بہت زیادہ مطابقت نہیں رکھا، چناں چہ فٹز جیرالڈ نے خود کہا تھا کہ یہ  translation نہیں ہے بلکہ transmogrification  ہے۔ 

تاہم فٹز جیرالڈ کا یہ کارنامہ قابلِ صد تحسین ہے کہ اس نے خیام کی قرونِ وسطیٰ کی ایرانی فضا کو بڑی عمدگی سے انگریزی میں منتقل کیا ہے، اور اس کے تراجم میں بھرپور تخلیقی شان نظر آتی ہے۔

 1923ء میں حضرت ملک الکلام سید محمد لائق حسین قوی امروہی نے خیام کی رباعیات کا ترجمہ "تاج الکلام"کے نام سے کیا۔ اس کتاب میں مذکورہ رباعی کا یہ ترجمہ دیا گیا ہے: 

 

خورشید نے کمند سی پھینکی ہے سوئے بام

فرماں روائے روز نے مے سے بھرا ہے جام

مے پی کہ اٹھنے والوں نے ہنگامِ صبح کے

بھیدوں کو تیرے کھول دیا سب پہ لا کلام

 

صاف ظاہر ہے کہ موصوف نے قرآنی  لفظ "اِشربوا" کو مطلب سمجھنے میں غلطی کی ہے چناں چہ رباعی کا مطلب خبط ہو گیا ہے۔ 

اب دیکھیئے محشر نقوی کو کہ انھوں نے براہِ راست انگریزی سے ترجمہ کیا ہے: 

اٹھ جاگ کہ خورشیدِ خاور، وہ چرخ ِ بریں کا شہ پارا

تاریکیِ شب کی چادر کو اک آن میں کر پارا پارا

ہر برگ و شجر، ہر بام و در کو نور کا پہنا کر زیور

مشرق کی مہم کو سر کر کے اجرامِ فلک کو دے مارا

 

ایم ڈی تاثیر اردو ادب کی مشہور شخصیت ہیں۔ ان کے نامہٴ اعمال میں چند پردہ نشینوں کے علاوہ عمر خیام کی کچھ رباعیوں کے نام بھی آتے ہیں۔ 

اٹھ جاگ کہ شب کے ساغر میں سورج نے وہ پتھر مارا ہے 

جو مے تھی وہ سب بہہ نکلی ہے، جو جام تھا پارا پارا ہے 

مشرق کا شکاری اٹھا ہے، کرنوں کی کمندیں پھینکی ہیں 

ایک پیچ میں قصرِ اسکندر،اک پیچ میں قصرِ دارا ہے 

 

آپ نے دیکھا کہ اگرچہ یہ  ترجمہ رواں دواں اور چست ہے، تاہم اسے خیام کا ترجمہ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تاثیر صاحب نے فٹزجیرلڈ کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ کیا ہے۔ 

اردو کے رندِ خراباتی شاعر عبد الحمید عدم نے 1960ء میں ’رباعیاتِ حکیم خیام‘ کے نام سے خیام کا ترجمہ کیا۔ کتاب کے دیباچے کے مطابق عدم کو اس کام کی ترغیب ایم ڈی تاثیر صاحب نے دلائی تھی۔ عدم نے اپنے ترجمے میں یہ اختراع کی کہ انھوں نے اکثر رباعیوں کا ترجمہ رباعی کی شکل میں نہیں بلکہ قطعے کی شکل میں کیا ہے، جس میں تین کی بہ جائے دو قوافی استعمال کیے گئے ہیں۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ خیام کے اکثر مترجموں کے لیے فارسی رباعی کے تین قوافی کو نبھانا بے حد مشکل ثابت ہوا ہے، جس کی وجہ سے بہت جگہوں پر رباعی رباعی نہیں بلکہ قافیہ پیمائی بن کر رہ جاتی ہے ۔ لیکن عدم نے قطعے کی ہیئت استعمال کر کے اور دو قافیے برت کر روانی اور بندش کی چستی کی خوبیاں حاصل کر لی ہیں: 

 

جاگ ساقی کہ حجلہ ٴ شب میں

ایسا کنکر سحر نے مارا ہے

جامِ درویش کی بساط ہی کیا

جامِ سلطاں بھی پارا پارا ہے

 

اب واقف مراد آبادی کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اسی رباعی کو کیسے اردو کا چولا پہنایا ہے: 

 

اب صبح ہوئی، دیر نہ کر، جاگ شِتاب

ہنگامِ صبوحی ہے یہی محوِ خواب

یوں وقت نہ کھو، جلدی سے اٹھ کر پی مے

خورشید نے خود جام میں ڈھالی ہے شراب

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ واقف صاحب کا ترجمہ نک سک سے درست اور خوب رواں دواں ہے۔ 

اب صبا اکبر آبادی کے ترجمے پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں: 

 

خورشید نے پھینکی ہے کمندِ سحری

خسرو نے اڑائی دن میں شیشے کی پری

مے پی کہ سحر خیز پرندوں کی صدا

اَسرار کی کرتی ہے ترے پردہ دری

 

جدید اردو نظم کے عظیم شاعر میرا جی نے  جہاں دنیا بھر کے شعرا کے اردو میں ترجمے کیے، وہیں انھوں نے "خیمے کے آس پاس"کے نام سے رباعیاتِ خیام کا ترجمہ بھی کیا۔ جیسے کہ نام سے ظاہر ہے، یہ ترجمہ اصل کی ڈھیلی ڈھالی پیروی ہے۔ تاہم میرا جی کا کمال یہ ہے کہ اکثر مقامات پر وہ خیام کو ہندوستانی لبادہ پہنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو فٹزجیرلڈ نے انگریزی میں سرانجام دیا تھا:

 

جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دور بھگایا ہے 

اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے 

جاگو اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے 

راجا کے محل کے کنگورے پر اُجّول کا تیر چلایا ہے 

 

مجید امجد نے غالباً خیام اور میرا جی دونوں سے فائدہ اٹھا کر بہت عمدہ شعر نکالا ہے: 

 

کس کی کھوج میں گم صم ہو، خوابوں کے شکاری جاگو بھی 

اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چکا 

 

میرا جی 

میرا جی نے رباعی  کی ہیئت کے بھاری پتھر کو ہاتھ ہی نہیں لگایا۔ چوں کہ وہ گیت کے شاعر تھے، اس لیے انھوں نے گیت کی  لمبی اور مترنم بحر کا انتخاب کیا۔ میں نے ہندوستانی چولا پہنانے کی بات کی تھی، اس کی ایک اور مثال دیکھیئے:

اس بستی میں یا اس بستی، ہر بستی کی  ریت یہی

باری باری گرتے پتے اور ڈالی مرجھاتی ہے 

پیالی میں میٹھی کڑوی اور  مہنگی سستی کی ریت یہی

بوند بوند میں جیون مدھرا، پل پل میں رستی جاتی ہے 

 

ہندوستانیت کی بات آئی ہے تو سامعین کی دل چسپی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ ہندی کے مشہور شاعر اور امیتابھ بچن کے والد ہری ونش رائے بچّن نے بھی "خیام کی مدھو شالا "سے نام سے رباعیاتِ خیام کا ترجمہ کیا ہے۔  تقابل کی غرض سے "خورشید کمندِ صبح"والی رباعی کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

 

اوشا نے پھینکا روی پاشانڑ 

نشا بھاجن میں، جلدی جاگ 

پریئے، دیکھو پا یہ سنکیت 

گئے کیسے تارک دل بھاگ 

اور دیکھو 

اوہیری نے پورب کے لال 

پھنسا لی سلطانی مینار 

بچھرا کیسا کرنوں کا جال 

 

جیسا کہ اس مثال سے بھی ظاہر ہے،"خیام کی مدھو شالا"میں بچن کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں سکی۔ تاہم اس کے بعد بھی بچن خیام کے جادو سے باہر نہیں نکل سکے اور انھوں نے ایک اور شعری مجموعہ "مدھو شالا"کے نام سے لکھا، جو ان کی مشہور ترین کتاب ہے۔ یہ خیام کا ترجمہ تو نہیں لیکن اس میں جگہ جگہ خیام کا رنگ صاف چھلکتا ہے:

لالایت ادھاروں سے جس نے ہائے نہیں چومی ہالا 

ہرش وِکانپت کر سے جس نے، ہا، نہیں چھوا مدھو کا پیالا 

ہاتھ پکڑ لجّت ساقی کا پاس نہیں جس نے کھینچا 

وِیئرتھ سُکھا ڈالی جیون کی اس نے مدھو مے مدھو شالا 

 

براہِ راست ترجمہ نہ سہی، لیکن بچن یہاں خیام کی اس مشہور رباعی سے متاثر ہوئے ہیں:

 

آمد سحری  ندا از میخانہ ٴ ما

که ای  رندِ خراباتی و دیوانہ ٴ ما

برخیز کہ پر کنیم پیمانہ زمی

زاں پیش کہ پر کنند پیمانہ ٴ ما

 

آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں خم کدہ ٴخیام کے نام سے خیام کی 200 منتخب رباعیوں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ مندرجہ بالا رباعی کا ترجمہ ملاحظہ کیجیئے: 

آئی یہ صدا صبح کو مے خانے سے

اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے

اٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم

کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے

 

ملک الکلام نے اسی رباعی  کا یوں ترجمہ کیا ہے:

 

اک صبح ندا آئی یہ مے خانے سے

اے رندِ خرابات، مرے دیوانے

قبل اس کے مےِ ناب سے بھر لے ساغر

پیمانہ ٴ تن سے بادہ ٴ جاں چھلکے

 

ایک نسبتاً جدید ترجمہ دیکھیئے جو جناب عزیز احمد جلیلی نے کیا ہے۔ جلیلی کتاب کے دیباچے کے مطابق خانوادہ ٴ جلیل مانک پوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ترجمہ جنوری 1987ء میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوا تھا۔ اس ترجمے انھوں نے یہ جدت روا رکھی ہے کہ پہلے فارسی رباعیات کا ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں فٹزجیرالڈ کی انگریزی کو اردو میں ڈھالا گیا ہے۔ 

 

اک صبح ندا آئی یہ مے خانے سے

اے رندِ قدح نوش، مرے دیوانے

آ خوب مےِ نام کے ساغر چھلکائیں

بھر جائے قدح زیست کا اس سے پہلے

 

واقف مراد آبادی: 

 

ہوئی سحر تو پکارا یہ پیرِ مے خانہ

ارے او مست، کہاں ہے سدا کا دیوانہ

بلانا اس کو کہ جلدی سے اس کا جام بھریں

مبادا موت نہ بھر ڈالے اس کا پیمانہ

 

ایک بار پھر واقف کا ترجمہ بہت عمدہ اور کامیاب ہے۔ 

 

میرا جی 

آئی ندا یہ صبح سویرے کانوں میں مے خانے سے 

کوئی یہ کہہ دے  جا کے ذرا یہ بات ترے دیوانے سے

اٹھ جاگ، بس آنکھوں کھول، چل آ جا، بھر لیں ہم پیمانے کو 

کوئی دم میں چھلک اٹھے گی جیون کے پیمانے سے 

 

عدم 

 

کل صبح خرابات سے آئی یہ ندا

اٹھ جاگ، صراحی مےِ خنداں کی اٹھا

کب ٹوٹ کے ہو جاتا ہے ریزہ ریزہ

پیمانہ ٴ ہستی کا نہیں کوئی پتا

 

اسی رباعی کا فٹزجیرلڈ نے ایسا ترجمہ کیا ہے جس کے سامنے اردو تراجم کمھلا جاتے ہیں: 

 

Dreaming when Dawn"s Left Hand was in the Sky

I heard a Voice within the Tavern cry,

  Awake, my Little ones, and fill the Cup

Before Life"s Liquor in its Cup be dry

 

خیام کی رباعیوں کا ترجمہ اس لیے بھی مشکل ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ایک خصوصیت وہ ہے جسے اردو کلاسیکی اصطلاح میں "کیفیت" کہا جاتا ہے۔ کیفیت والا شعر سن کر اس کے الفاظ اور معنی کی طرف ذہن نہیں جاتا بلکہ یہ دل  کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ یوں سمجھیئے کہ معنی آفرینی والے شعر کو سن کر زبان سے واہ نکلتی ہے، جب کہ کیفیت والا شعر سننے کے بعد دل سے آہ نکلتی ہے۔ ظاہر ہے کہ معنی کا ترجمہ آسان ہے،  اور کیفیت کا بہت مشکل۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عدم کے بعض کامیاب ترجموں میں خیام کی کیفیت کسی حد تک عُود کر آئی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ عدم خود بھی بنیادی طور پر کیفیت کے شاعر تھے: 

 

سلسلہ تیری میری باتوں کا

پسِ پردہ ہے جو بھی جاری ہے

پردہ اٹھا تو آگہی ہو گی

پردہ داری ہی پردہ داری ہے

 

عدم ہی کی ایک اور مثال پر میں اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہوں: 

 

نوجوانی کے عہدِ رنگیں میں

جز مےِ ناب اور کیا پینا

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی

تلخ ہے جام، تلخ ہے جینا

 

 

انیسویں صدی کے وسط میں خیام عالمی افق پر نمایاں ہوتا ہے۔ اس کی بین الاقوامی شہرت سو برس کی شہرت ہے۔ اس ایک صدی کے عرصے میں اس کی شخصیت اور شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس تمام تنقیدی اور تحقیقی سرمائے کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈنمارک کے محقق اور خاور شناس پیر پاسکال کا کہنا ہے کہ:

"گزشتہ سو برس میں خیام کی رباعیات کے جو ترجمے ہوئے اور جو رسالے اس پر لکھے گئے ان کی فہرست بنانا محال ہے۔"

"دمے با خیام" (کچھ دیر خیام کے ساتھ) کے ایرانی مصنف علی دشتی کی تحقیق کے مطابق خیام کا کلام انگریزی میں ۳۱ مرتبہ، فرانسیسی میں ۱۶ مرتبہ، جرمنی میں ۱۲ دفعہ، عربی میں آٹھ دفعہ، اطالوی میں چار دفعہ، ترکی اور روسی میں دو دفعہ اور ڈنمارکی، سویڈش اور ارمنی میں بھی دو مرتبہ شائع ہو چکا ہے۔ خود فٹز جرالڈ خیام کا ترجمان بن کر زندہ جاوید ہو گیا۔ اس کا ترجمہ ۱۹۲۵ء تک ۱۳۹ بار شائع ہوا۔ نیویارک کی پبلک لائبریری میں اس موضوع پر پانچ سو عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔

ایک شاعر کی حیثیت سے دریافت ہونے سے پہلے بھی اس کی فضیلت اور علمی حیثیت مسلّم تھی۔ وہ اپنے عہد کے جملہ علوم و معارف پر حاوی تھا۔ اتنا زبردست ہیئت دان تھا کہ اپنے مربّی ملک شاہ سلجوقی کے لئے التاریخ الجلالی کے نام سے اس نے جو کیلنڈر تیار کیا وہ گریگوری (GREGORY) کے کیلنڈر سے زیادہ قرینِ صحت ہے۔ گریگوری کے کیلنڈر میں تین ہزار تین سو سال میں ایک دن کا مغالطہ پڑتا ہے جب کہ عمر خیام کے کیلنڈر میں پانچ ہزار سال میں ایک دن کا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک ایسا ماہر اور اعلی پائے کا ریاضی دان تھا کہ اس نے تیسرے درجے کی مساوات حل کیں اور کارڈن (CARDON)، ڈیکارٹ (DECARTES) اور فیراری (FEAURARI) کے لئے راستہ ہموار کیا۔ اس کے اس کارنامے کی بدولت تیسرے اور چوتھے درجے کی مساوات کے الجبرائی حل دریافت ہوئے۔ الجبرے میں جیومیٹری اور جیومیٹری میں الجبرے کے استعمال سے اس نے تجزیاتی ہندسے کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔

جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق ہے اس کے بارے میں مختلف نقادوں کی آراء اسی طرح ہیں جس طرح شراب مختلف پیمانوں میں پہنچ کر مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہے۔ علی دشتی کے نزدیک اس کی طرزِ فکر حکیمانہ ہے اور وہ ہر بات کے لئے عقلی دلیل تلاش کرتا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے خیال کے مطابق وہ ایک صوفی تھا اور اس کا پیغام روحانی ہے۔ اسی طرح بغداد کے ایک فاضل نقاد احمد حامد الصراف نے عربی میں عمر الخیام کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کے فلسفے کی روحانی تعبیر کی ہے۔ ان کے نزدیک خیام کا فلسفہ، فلسفۂ اسلام سے متصادم نہیں۔ بغداد ہی کے ایک دوسرے فاضل معاصر نے اسے ایک ایسا انقلابی شاعر قرار دیا ہے جو ہر روایت کا باغی ہے اور مذہب کے خلاف بھی اس نے صدائے احتجاج بلند کی ہے اور تقدس و زہد کے ہر مرکز پر ہلہ بولا ہے۔ بعضوں کے نزدیک وہ باطنی تحریک کا داعی تھا۔ ترکی کے معروف اسلامی مفکر رضا توفیق نے ان لوگوں پر کڑی تنقید کی ہے جو خیام کے فلسفے کو ایپی کیورین فلسفہ کہتے ہیں۔ اسی طرح بعض نقادوں کے نزدیک وہ لاادریت کے فلسفے کا ترجمان ہے اور اس نے لادینیت اور کفر و الحاد کا پرچار کیا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی اسے سعدی سے بھی بڑا معلمِ اخلاق قرار دیتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ خیام سے منسوب رباعیاں اس آریائی روح کا اظہار ہیں جو سامی عقیدوں سے رہائی چاہتی ہے اور لطف یہ کہ ان سب کے سب نقادوں کے دلائل رباعیاتِ خیام سے ماخوذ ہیں۔

خیام اس اعتبار سے بڑا خوش قسمت شاعر ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور اہم زبانوں میں اس کی رباعیات کے ترجمے ہو چکے ہیں لیکن مفسروں کے اس انبوہ اور مترجموں کے اس اژدہام میں گھری ہوئی یہ شخصیت بڑی مظلوم بھی ہے۔ ایک خیام ہے لیکن کیا کچھ نہیں۔ سید المحققین بھی، فیلسوف بھی، حجۃ الحق بھی، زندیق بھی، سچا مسلمان بھی، ملحد بھی، مفسرِ قرآن بھی، صوفی بھی، حکیم الاسلام بھی اور مذہب کا باغی بھی۔ مختلف شارحین نے اس کی فکر اتنے ان گنت مداروں میں گردش کرتی ہوئی دکھائی ہے کہ روس کے مشہور مستشرق ژوکوفسکی کو کہنا پڑا۔

"اگر کوئی شخص سو سال عمر پائے اور دن میں دو مرتبہ اپنا عقیدہ بدلے تو بھی اتنے متناقض خیالات پیش نہیں کر سکتا۔"

وہ مظلوم یوں بھی ہے کہ اس کے آئینے میں ہر نقاد نے اپنی شبیہ دیکھی ہے اور زندگی کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کو خیام کا نقطۂ نظر قرار دیا ہے۔ جن بزرگوں کے نزدیک خیام کا کلام اسلامی تعلیمات کا علمبردار ہے میں ان کے اس حسنِ گمان کا احترام کرتا ہوں لیکن اس مضمون میں مجھے وہ کچھ بیان کرنا ہے جو اس کی رباعیات کے مطالعے سے میں نے اخذ کیا ہے۔ ان تاثرات کے اظہار سے پیشتر میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ خیام کی ان رباعیات کی تعداد کتنی ہے جو زیادہ سے زیادہ مستند قرار پاتی ہیں اور میں نے اس سلسلے میں جس نسخے پر اعتماد کیا ہے اس کی صحت کا مرتبہ کیا ہے؟

دراصل خیام کے بارے میں الحاقی اور سیار رباعیات کا مسئلہ بنیادی اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر کافی تحقیق ہو چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جوں جوں یہ تحقیق آگے بڑھی ہے اصل رباعیات کی تعداد کم ہوتی گئی ہے۔ یہ تعداد پھیلنے لگی تو ایک ہزار سے بڑھ گئی اور سمٹنے لگی تو صرف تیرہ ۱۳ رہ گئی۔ اسی لئے ۱۹۳۴ء میں ایک محقق شیڈر (SHAEDER) نے اپنی تحقیق شائع کی اور یہ دعوی کیا کہ خیام نے ایک رباعی بھی نہیں لکھی اور اس کا نام فارسی شعرا کی فہرست سے خارج کر دینا چاہئے۔

اس دلچسپ تحقیق کی تفصیل یہ ہے کہ خیام کی زندگی میں شاید ہی کسی کو معلوم ہوا ہو کہ وہ شعر بھی کہتا ہے۔ اس کی وفات کے سو سال بعد تک اس کی کوئی رباعی منظرِ عام پر نہیں آئی۔ سب سے پہلے عماد الدین کاتب نے اپنی معروف کتاب "جریدۃ العصر" میں اس کا تذکرہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا ہے۔ یہ کتاب خیام کی وفات کے پچاس برس بعد تالیف ہوئی اور اس میں اس کا ذکر صرف عربی کے ایک شاعر کی حیثیت سے کیا گیا ہے اور اس کے عربی کے چار شعر بھی نقل کئے گئے ہیں۔ اس کی فارسی کی ایک رباعی پہلی مرتبہ امام فخر رازی کے رسالے البتینہ میں ملتی ہے۔ پھر "سند باد نامہ" میں پانچ رباعیاں نقل ہوئی ہیں۔ اس طرح ساتویں صدی ہجری سے لے کر آٹھویں صدی کے وسط تک مختلف ماخذ میں نقل شدہ رباعیات کی تعداد ۳۶ ہے۔ اور خیام کی وفات کے دو سو سال بعد تک یہ تعداد پچاس تک پہنچ گئی ہے۔ ۸۴۰ ہجری تک خیام سے منسوب رباعیات کی تعداد ۶۰ ہو گئی۔

علی دشتی کا قیاس یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی حالات کے ناسازگار ہونے کے باعث خیام کی رباعیات پردهٔ اخفا میں رہی ہیں، اس لئے کہ تاتاری حملے اور سقوطِ بغداد سے پہلے کی فضا خیام کے افکار کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ متعصب فقیہوں کے خوف سے خیام اپنے چند قابلِ اعتماد دوستوں کے سوا کسی کو اپنے شعر نہیں سناتا تھا۔ اس لئے کہ اس کے افکار عمومی معتقدات سے ہٹ کر تھے۔

۸۴۰ ہجری تک اس کی جو رباعیات نقل ہوئی ہیں وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہیں۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے اس کے انداز میں رباعیاں کہنی شروع کر دیں جو اس سے منسوب کر دی گئیں۔ خیام کی وفات کے تین سو سال بعد یہ تعداد ۸۰۰ تک پہنچ گئی اور اس کی رباعیات کے کئی نسخے مرتب ہو گئے۔

خیام کی اصل رباعیات کی تلاش میں محققین نے بڑی کاوش کی ہے۔ اس جستجو میں کرسٹن سن، ڈاکٹر روزن، ژوکوفسکی اور بودلین جیسے مغربی مستشرقین بھی شامل ہیں اور محمد علی فروغی، سعید نفیسی، علی دشتی اور صادق ہدایت جیسے ایران کے بلند پایہ محقق بھی۔

بودلین کا نسخہ ۱۵۸ رباعیات پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ اس لئے قابلِ اعتماد نہیں کہ خیام کی وفات کے ۳۵۰ سال بعد مرتب کیا گیا ہے۔ کرسٹن سن نے ۱۲۱۳ رباعیات میں سے ۱۲۱ کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ساری رباعیاں بھی رباعیاتِ اصیل قرار نہیں دی جا سکتیں۔ روسی محقق ژوکوفسکی کے نزدیک خیام سے منسوب سو رباعیاں ایسی ہیں جو فارسی کے دوسرے بڑے شعرا مثلا عطار اور رومی کے دواوین میں بھی موجود ہیں۔ اس نے ان رباعیات کو رباعیاتِ سرگرداں (WANDERING QUATRAINS) کہا ہے۔ برصغیرِ پاک و ہند میں سوامی گوبند رام تیرتھ نے اپنی کتاب (NECTAR OF GRACE) کی تالیف کے سلسلے میں رباعیاتِ خیام کے ۱۱۱ نسخوں کا مطالعہ کیا۔ ایرانی محققوں نے خیام کی اصل رباعیات کی دریافت کے ضمن میں انتہائی قابلِ تحسین کنجکاوی کی ہے۔ انہوں نے مغربی انداز تنقیحِ متن کی پیروی بھی کی ہے۔ اور تنقیحِ قیاسی سے بھی کام لیا ہے۔ سعید نفیسی مرحوم کو خیام کے متن رباعیات کے ۱۱۹ نسخے ملے جن میں مفصل ترین نسخہ لکھنؤ کا چھپا ہوا ہے۔ اس میں رباعیات کی تعداد ۷۷۲ ہے جو ۱۲۲۴ رباعیات میں سے انتخاب کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں علی دشتی کا کارنامہ بے انتہا موردِ ستائش ہے کہ اس نے مغربی محققوں کے کام کا محاکمہ بھی کیا ہے اور ذاتی طور پر رباعیاتِ خیام کے ایک ایک ماخذ کا پتہ لگایا ہے اور پھر ایک ایک رباعی پر بحث کی ہے کہ اگر خیام کی ہے تو کیوں ہے اور اگر اس کی نہیں تو کیوں نہیں۔ خیام کی طرزِ فکر اور طرزِ اظہار سے اسے بے پناہ آگاہی حاصل ہے۔ اِس بنیاد پر اُس نے رباعیات کے اس ذخیرے کو منسوب، سیار، سرگرداں، الحاقی، مشابہ اور خیام وار کی مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے۔

اس وقت دنیا میں قدیم ترین نسخہ عباس اقبال کا نسخہ ہے جسے پروفیسر آربری نے ۱۹۵۰ء میں شائع کیا۔ عباس اقبال نے ثابت کیا ہے کہ یہ نسخہ ۶۰۴ ہجری کا لکھا ہوا ہے اور خیام کی وفات کے ۷۵ برس بعد مرتب کیا گیا ہے اور اس میں رباعیات کی تعداد ۲۵۲ ہے۔ یہ وہی نسخہ ہے جو ایران کے مجلہ یادگار میں شائع ہوا اور پھر کیمبرج یونیورسٹی کو فروخت کر دیا گیا۔ معروف خیام شناس پیر پاسکال نے بھی اپنے کام کی بنیاد اسی نسخے پر رکھی ہے۔

محمد علی فروغی نے اپنی تحقیق کا ماخذ ان کتابوں کو ٹھہرایا ہے جو نویں صدی ہجری سے پہلے تالیف ہوئی ہیں۔ اس نے اپنے ترتیب دیے ہوئے نسخے پر ایک فاضلانہ دیباچہ بھی لکھا ہے اور اپنے ماخذ (مرصاد العباد، تاریخ جہانگشائے جوینی، تاریخِ گزیدہ، نزہت المجالس، مونس الاحرار اور جنگ اشعاری) کے تفصیلی حوالے دیئے ہیں۔ ان ماخذ سے فروغی نے ۶۶ رباعیاں اکھٹی کی ہیں اور پھر ان کو بنیاد مان کر خیام سے منسوب تقریبا پانچ سو رباعیوں کو پرکھا ہے اور پھر ان میں سے خیام کے شیوهٔ بیان اور روشِ فکر سے قریب محسوس ہوئی ہوئی رباعیاں اختیار کر لی ہیں اور باقی ماندہ کو رد کر دیا ہے۔ ایک ہی مضمون کی مختلف رباعیوں میں سے اس نے پختہ تر کو اختیار کیا ہے اور اس طرح ۱۷۸ رباعیات پر اپنے قوی احتمال اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ علمی اصولوں اور اسلوب شناسی کے قاعدوں کے مطابق جو تحقیقات عمل میں آئی ہیں ان سے یہ بات مسلم ہے کہ رباعیاتِ خیام کی اصل تعداد ۱۷۸ سے متجاوز نہیں ہے۔ علی دشتی بھی فروغی کے نسخے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے، اس لئے کہ نسخہ عباس اقبال کے نسخے سے بھی زیادہ احتیاط کا حامل ہے۔

ابن سینا
عمر خیام
  • White Twitter Icon
  • White Facebook Icon
  • White Vimeo Icon
  • White YouTube Icon
  • White Instagram Icon

Copyright© 2019 by Shabbir Ahmad Shigri

bottom of page