top of page

داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ ”داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے ، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے ۔“ بقول کلیم الدین احمد ”داستان کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت ہے ۔“ گیان چند جین کے مطابق ”داستان کے لغوی معنی قصہ۔ کہانی اور افسانہ کے ہیں۔ خواہ وہ منظوم ہو یا منثور۔ جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ غیر فطری، اکتسابی اور فوق العادت شاذ و نادر فوق العجائب بھی ہو سکتے ہیں۔ افسانوں کی قسموں میں داستان ایک مخصوص صنف کا نام ہو گیا تھا۔“
دنیا کی ادبیات میں فابلوں کا ایک حصہ وہ رزمیہ تخیلات ہیں جن کے نمونے یونان، ایران اور ہندوستان کی قدیم کہانیوں میں نظرآتے ہیں۔ مثال کے طور پرکیخسروکا ”جام جہاں نما“ یا سکندر کا ”آئینہ نامہ“ بہادرانہ فابل ہیں۔ یہ ان دونوں ہیرووٴں کی بے انتہا قوت کو بتانے کے لیے وجود میں آئے ہیں۔ ایران، ہندوستان اور دیگر ممالک کی مذہبی روایات میں بھی اس طرح کے فابل ملتے ہیں۔ ایران میں شاہنامہ اور ہندوستان میں ”مہابھارت“ قابل ذکر ہیں۔ فابلوں کی ایک دوسری قسم وہ چھوٹی۔ چھوٹی کہانیاں ہیں جن کی بنیاد کسی اخلاقی موضوع پر ہوتی ہے ۔ ان اخلاقی فابلوں میں سے بہت سے فابلوں کے ہیرو انسان نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ”کلیلہ و دمنہ“ میں اس کے مجموعی خاکے کے علاوہ چھوٹی۔ چھوٹی کہانیاں بھی اس میں شامل ہیں جن کے سبھی کردار شیر، گیدڑ، لومڑی، خرگوش، گائے اور گدھے وغیرہ ہیں۔ یہ سب کے سب اخلاقی فابل ہیں۔ ”کونت“ بھی مختصر یوروپی کہانی کی ایک قسم ہے جو فابل سے مشابہت رکھتی ہے ۔ یہ تخیل کی پیداوار ہوتی ہے اس میں کوئی معاشرتی موضوع نہیں ہوتا۔ زیادہ تر اس میں ایسی گھریلو زندگی کے گوشے اجاگر کیے جاتے ہیں جہاں حیرت انگیز واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور پڑھنے والوں کو ان سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا، اس کی رنگین بیانی سے ان نصیحتوں کی چھاپ بلاواسطہ انسانی ذہنوں پر پڑتی ہے ۔ ”فانتزی“ ایک ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں لکھنے والے نے اپنا مقصد بیان کرنے کے لیے کوئی موضوع تراشا ہو۔ اور وہ اپنے حقیقی ہیرو کو تبدیل شدہ نام و مقامات کے ساتھ نمایاں کرے اور اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنائے ۔ خواجہ امان نے ”بوستانِ خیال“ کے دیباچہ میں اچھی داستانوں کے لیے چند ضروری شرطیں قرار دی ہیں۔ ”اول مطول خوشنما جس کی تمہید و بندش میں توارد مضمون و تکرار بیان نہ ہو،
داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا۔ تمام قصے کچھ ان خطوط پر چلتے ہیں کہ ہیرو کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے راہ میں بہت سے حوادث، دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام مصائب کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے ۔ جہاں تک داستان کی اصل غایت کا تعلق ہے وہ کہانی کی غایت سے مختلف نہیں۔ زیادہ تر داستانوں کے موضوعات ہلکے پھلکے عشقیہ و تفریحی ہوتے ہیں۔ کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اخلاق آموزی، تہذیب نفس، عالمانہ دقیقہ سنجی، مذہب اور تخلیق پر زور دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور داستان کی اصل غایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ داستانی تکنیک کو کلچرل، اخلاقی اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے ان داستانوں کو درس آموز کلیات کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر ذہن نشیں کر سکیں۔ داستانوں میں اخلاقی تعلیم یا مذہبی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں یعنی معلمین اخلاق اور علمبرداران مذہب نے بھی داستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخلاق و مذہب کے مبادیات تفریحی مطالعہ کے طور پر آسانی سے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ تفریح اور عشق کا التزام کسی نہ کسی داستان میں ضرور ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ عجائب نگاری کی بہت زیادہ کوشش ہوتی ہے ۔ طلسم و سحر، نیرنگ و فسوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے جاتے ہیں۔ بقول صغیر افراہیم
داستان دراصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے ۔ خواہشات کی تکمیل جب حقیقی عنوان سے نہ ہو پاتی تو تخیل کے سہارے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی اس لیے انسان جب اپنے حالات سے فرار حاصل کرتا تو عموماً داستانوں کی دنیا میں پہنچ کر ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتا۔
بہ اعتبار مجموعی داستان کی اصل اور اہم ترین غایت تفریح طبع ہے اور داستان کی سبق آموز کی حیثیت ثانوی ہے ۔
bottom of page