
امام خمینی رحمت اللہ علیہ، ولادت سے رحلت تک
بیس جمادی الثانی 1320 ہجری قمری مطابق 24ستمبر 1902 عیسوی کو ایران کےصوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیبوطاہر نسل کے خاندان میں آپ کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینیکی پیدائش ہوئي۔ وہ اپنے آباؤ اجدادکے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طورپر آشنا تھا ۔
امام خمینی کے پدربزرگوار آیت اللہ سید مصطفی مرحوم جو آیت اللہ العظمی میرزایشیرازی کے ہم عصر تھے نجف اشرف میں اسلامی علوم کے اعلی مدارج طے کرنے
کے بعد درجہ اجتہاد پر فائزہوئے اور پھر ایران واپس آگئے اور شہر خمین میں تبلیغ وہدایت کے فرائض انجام دینے لگے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کوابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومتوقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انھیں شہید کردیا ۔
اس طرح حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ انتہائی کمسنی کے عالم سے ہی رنج یتیمی سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے ۔ انھوں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنی والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت میں گذارا ۔ محترمہ ہاجرہ خاتون خود بھی اہل علم وتقوی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور صاحب زبدالتصانیف آیت اللہ خوانساری کی اولادوں میں سے تھیں۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی پھوپھی محترمہ صاحبہ خانم کے دامن تربیت میں بھی پرورش پائی جو ایک دلیر اور باتقوی خاتون تھیں لیکن ابھی آپ پندرہ سال کے تھے کہ آپ ان دونوں شفیق اور مہربان ہستیوں کے سایہ عطوفت سے محروم ہوگئے۔
قم کی جانب سفر
جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحومآیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخعبدالکریمحائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ آیت اللہ العظمی حائری یزدیکی رحلت کے بعد حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے دیگر مجتہدین کے ہمراہ کوششکی کہ آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کی زعامت قبول کرلیں اور ان کی یہ کوششکامیاب بھی ہوئی اور آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کے زعیم کی حیثیت سےبروجرد سے قم تشریف لے آئے۔ اس وقت تک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو
حوزہ علمیہ میں فقہ واصول اورفلسفہ وعرفان میں ایک اعلی سطح کے مدرس اورمجتہد کی حیثيت سے لوگ پہچاننے لگے تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے
برسہا برس حوزہ علمیہ قم کے مختلف مراکز میں جن میں مدرسہ فیضیہ ،مسجد اعظم،مسجد محمدیہ، مدرسہ حاج ملاصادق اورمسجد سلماسی شامل ہیں فقہ واصول فلسفہ وعرفان
اور اخلاق کے درس دیتے رہے۔ عراق میں قیام کے دوران حوزہ علمیہ نجف اشرف میںبھی چودہ برس تک مسجدشیخ اعظم انصاری میں علوم اہل بیت کے پیاسوں کو سیراب کرتےرہے ۔ آپ نے نجف اشرف میں ہی پہلی بار اسلامی حکومت کا نظریہ اور اصول پیش کئےجو آپ کے ولایت فقیہ کے سلسلے میں دئے جانے والے دروس کے دوران انتہائي مدلل اندازمیں سامنے آئے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جہاد کے محاذ پراللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہی شروع کردی اور اس جدوجہد کو آپ کی علمی اورمعنوی ترقی کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ایران کے سماجی اور اسلامی دنیاکے سیاسی حالات نے اس جذبہ کو اور بھی تقویت بخشی۔ سن 62 ۔ 1961 میں صوبائي اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونےوالی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہکی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریککو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ جو پہلی عالمی جنگ کے موقع پر صرف بارہ سال کے تھے
اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
مجھے دونوں ہی عالمی جنگيں یاد ہیں۔ میں چھوٹاتھا مگر مکتب جاتا تھا اور سابق سویتیونینکے فوجیوں کو خمین میں آتے جاتے دیکھتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہمیں حملوں کانشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک مقام پر مرکزی حکوت سے وابستہبعض خوانین(زمینداروں) اور راہزنوں کا نام بھی لیتے ہيں جولوگوں کا مال واسباب لوٹتے اورحتی ان کی ناموس پر بھی حملے کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تو لڑکپن ہی سے جنگ کیحالت میں تھا۔ ہم زلقی اور رجب علی جیسے خوانین (زمینداروں ) کے ظلم ستم کا شکا ر تھے۔ہمارے پاس بھی بندوقیں تھیں اور میں شاید تازہ سن بلوغ کو پہنچا تھا اور کمسن تھا۔ ہمارے علاقے میں مورچے بنائے گئے تھے اور یہ لوگ (خوانین) حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے تھے ، اس وقت ہم اس علاقے میں جاکرمورچوں کو دیکھتے تھے۔تین اسفند 1299 ہجری شمسی (1921 ) کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد وثبوت اورتاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اورجس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کاخاتمہ کر دیا اور کسی حدتک زمینداروں کی طوائف الملوکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیرسایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگۓ اورپہلوی خاندان کی آل اولاد نے زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لےلی۔ ان حالات میں علماء نے جن پر آئيينی انقلاب کے واقعات کے بعد انگریزوں کی آلہ کار حکومت کی یلغار تھی اور دوسری طرف وه مغرب زدہ اور نام نہاد روشن خیال افراد کا نشانہ بن رہے تھے اسلام کے دفاع اور اپنی بقا کے لئے کوششیں شروع کردیں ۔
آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری نے اس وقت قم کے علما کی دعوت پر اراک سے قم کے لئے ہجرت کی اور اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے جو اپنی غیرمعمولی صلاحتیوں کی بدولت خمین اور اراک کے حوزہ علمیہ میں مقدماتی اورسطوح (درس خارج سے پہلے کے دروس) کوپایہ تکمیل تک پہنچا چکے تھے قم کے لئے ہجرت کی اورعملی طورپر قم کے نئےدینی مرکزکی تقویت کے لئے بھرپورطریقے سے کوشش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار قم کی چند گنی چنی علمی شخصیات میں ہونے لگا اور آپ فقہ واصول اور فلسفہ وعرفان کے ایک جید عالم کی حیثیت سے معروف ہوگئے ۔
10بہمن 1315 ہجری شمسی ( 30 جنوری 1937 ) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے بہی خواہ علما نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگارہوگيا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئي اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آيت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئيينی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر 1328 ہجری شمسی ( 1950 ۔ 1949 ) میں آیت اللہ مرتضي حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔ 16 مہر 1341( 8 اکتوبر 1962 ) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گئ البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائيت کے پیروکاروں کی موجودگي اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئيين کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئيين سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت ديگر علما اسلام تمھارے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔
بہرحال صوبائی اورضلعی کونسلوں کا قضیہ ایرانی قوم کے لئے ایک اچھا تجربہ تھا خاص طورپر اس لئے کہ اس واقعے میں ایرانی قوم نے ایک ایسی شخصیت کو بھی پہچان لیا جو امت مسلمہ کی قیادت کے لئے ہرجہت سے مناسب تھی ۔
صوبائي اورضلعی کونسلوں کی تشکیل میں ناکامی کے باوجود شاہ پر امریکہ کے مجوزہ نام نہاد اصلاحی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کا دباؤ جاری رہا۔ شاہ نے دی ماہ 1341 ہجری شمسی (1963 ۔1962 ) کو انقلاب سفید کے نام پر چھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ریفرنڈم کرائے جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک بارپھر میدان میں آگئے اور اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کرنے کے لئے اور علما قم کا اجلاس بلایا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تجویز پر شاہ کے اقدامات کے خلاف بطور احتجاج عید نوروز نہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہاگیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔
شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علما کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہورہاتھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے بارہ فروردین 1342 (1 اپریل 1963 ) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی 13 فروردین 1342 (2 اپریل 1963) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔1342 ہجری شمسی (1964 ۔1963 ) کانیا سال عیدنوروزکے بائيکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین 1342(3 اپریل 1963 ) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئي تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہاگياتھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑدینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 12اردیبہشت1342 (1922 ۔1921 ) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی.
پندرہ خرداد(4جون) کی تحریک
1342 ہجری قمری (1922 ۔1921 ) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے بازآجا۔ تجھے بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ میں نہیں چاہتاکہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکراداکريں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائيل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائيلی ہے ؟
شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔سب سے پہلے چودہ خرداد(3جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل ميں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔ پندرہ خرداد (چارجون)کی صبح ہی تہران کے علاوہ مشہد شیراز اور دیگرشہروں میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیداہوگئی۔ شاہ کے سب سے قریبی ساتھی جنرل حسین فردوست اپنی سرگذشت میں پندرہ خرداد (چارجون)کی تحریک کوکچلنے میں امریکہ کے کہنہ کار سفارتی اور خفیہ اہلکاروں کے اقدامات اور قریبی تعاون نیز عین اس موقع پر شاہ، دربار، فوج اور ساواک کے سربراہان و اعلی افسران کے خوف وہراس کا ذکر کرتا ہے اور اس کی منظر کشی کرتا ہے کہ شاہ اور اس کے جنرل کس طرح دیوانہ وار اس تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کر رہے تھے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پندرہ دنوں تک قصر جیل میں رکھنے کے بعد عشرت آباد فوجی چھاؤنی میں منتقل کردیا کیا ۔
تحریک کے رہبر کی گرفتاری اور عوام کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بظاہر پندرہ خرداد 1342(5 جون 1963 ) کی تحریک کچل دی گئی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قید کے دوران شاہ کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ایک بھی سوال جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عدلیہ غیرقانونی ہے ۔ 18 فروردین 1343( 7 اپریل 1964) کی شام کو کسی پیشگي اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گيا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائي کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئ اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئي دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علاحدہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتاہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنارہاہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کےبیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کاآغازہوگيا ۔
13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گيا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیاگیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گيا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کردیاگیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوکانیں اورتجارتی مراکزبند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذھبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ اس درمیان شاہی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی عناصرکو کچلنے میں کوئی کسر نہيں چھوڑی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عدم موجودگي میں امریکہ کی مرضی کی اصلاحات کے پروگرام پر تیزی کے ساتھ عمل کرناشروع کردیا۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو یہ بہترین موقع ملا کہ آپ اپنی معروف فقہی کتاب تحریرالوسیلہ کی تدوین کا کام شروع کریں۔
تیرہ مہر 1343(5 اکتوبر 1964) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلہیم السلام اور شہدائے کربلا کی زيارت کے لئے روانہ ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئي تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائي سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان ماہ 1344(نومبر1965) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جلا وطنی کے برسوں میں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جد وجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 19 مہر 1347 کو فلسطینی تنظيم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔1969 میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔
عراق کی حکمراں بعث پارٹی نے اس بات کی بہت زيادہ کوشش کی کہ وہ ایران کی شاہی حکومت سے امام خمینی (رہ) کی دشمنی سے فائدہ اٹھائے۔ امام خمینی (رہ) کی چار برسوں تک تدریس سعی و کوشش نے کسی حد تک حوزہ علمیہ نجف کے ماحول کو بدل دیا تھا اور اس وقت تک ایران کے اندر انقلابیوں کے علاوہ خود عراق ، لبنان اور دیگر اسلامی ملکوں میں بھی امام خمینی کے بیشمار حامی پیدا ہوگئے تھے جو آپ کی تحریک کو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل سمجھتے تھے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور ( 1350 ۔ 1356 ) جد جہد کا تسلسل
1350 کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔
پندرہ خرداد 1354 ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔
شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند 1354 مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اسلامی انقلاب کا عروج اور عوامی تحریک
امام خمینی (رہ) نے جو دنیا اور ایران کے حالات پر انتہائي گہری نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آئے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آپ نے مرداد ماہ 1356 مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان 1356 مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتی جلسے ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائي حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عراق سے پیرس ہجرت "
نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہکو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گيا ۔ چوبیس ستمبر سن انیس سو اٹھتر کو بعثی حکومت کے کارندوںاور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔اس خبر کے پھیلتے ہی ایران، عراق اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کیلہر دوڑ گئی ۔چار اکتوبر کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہہوئے کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازتنہیں دی۔ اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہجرت کی باتیں گردشکررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعدپیرس جانے کا فیصلہ کیا اور چھے اکتوبر کو آپ پیرس پہنچ گئے ۔ دو دنوں کے بعد پیرس کے مضافاتیعلاقے نوفل لوشاتو میں آپ ایک ایرانی کے گھر میں رہائش پذیر ہوگئے۔ الیزہ پیلیس کے عہدہ داروں
نے فرانس کے صدر کا یہ پیغام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پہنچایا کہ انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنے سخت ردعمل میں فرمایا کہ اس طرح کی بندشیں ڈیموکریسی کے دعووں کے منافی ہیں اور اگر میں مجبور ہوا کہ اس ایئیرپورٹ سے اس ایئرپورٹ اور ایک ملک سے دوسرے ملک (مسلسل) ہجرت کرتا رہوں پھر بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔
وطن واپسی
جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریںنشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے 14برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کوآپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نےپورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنا فیصلہکرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل سازاور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزرکی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کےسامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ امام خمینی (رہ) 12 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت ، وصال یار فراق یاران "
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے مشن ، نصب العین ، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور پورا وجود الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اب چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائےاس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نےاس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔ حضرت امام خمینیرحمت اللہ علیہ کے عرفانی اشعار و غزلیں سب کی سب محبوب کے فراق کے درد و غماور وصال محبوب کی تشنگي کے بیان سے ہی عبارت تھیں ۔ حضرت امام خمینیرحمۃ اللہ علیہ کے لئے وہ عظیم اور ان کے شیدائیوں کے لئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا ۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سےرخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی ایک غزل میں اپنی رحلت سے کئی سال قبل یہ شعر کہا تھا :
" انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم سالہا می گذرد و حادثہ ہا می آید"
13 خرداد 1368 ہجری شمسی مطابق 3 جون 1989 کی رات 10 بج کر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔ اس کیمرے کی مدد سے جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں نے اسپتال میں نصب کررکھا تھا آپ کی علالت ، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات کو ریکارڈ کیا گيا۔ جس وقت ان ایّام کی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معنوی اور پرسکون حالات کے محض چند گوشوں کی متحرک تصویریں ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور دلوں پر یہ تصویریں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئیں کہ جن کا سمجھانا اور بیان کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ کوئی خود اس موقع پر موجود رہ کر ان معنوی کیفیات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں مصروف تھے ۔ زندگي کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی بڑے آپریشن ہوچکے تھے عمر بھی 87 برس کی تھی آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ۔ عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا۔ ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔ جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت جانگداز کی خبر نشر ہوئی گویا ایک زلزلہ آگیا۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے تھے رو پڑے، ایران سمیت پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں میں نالہ و شیون کا شور تھا ۔ کوئی بھی اس عظیم سانحے کے پہلوؤں اور عوام کے جذبات کو بیان کرنے کی سکت و توانائی نہیں رکھتا ۔ ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان بجاطور پر اس طرح کا سوگ اور غم منارہے تھے۔ اپنے رہبر و قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا اتنا بڑا سیلاب تاریخ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان سوگواروں نے ایسی ہستی کو الوداع کہا کہ جس نے ان کی پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کردیا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں اور امریکی و مغربی لیڈروں کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کی تخلیق کی تھی ۔ جس کی بدولت ایرانی مسلمان دنیا کی جابر اور شیطانی طاقتوں کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت و کودتا جیسی سینکڑوں سازشوں اور ملکی و غیر ملکی آشوب و فتنہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تاریخ شجاعت رقم کی۔ جبکہ مد مقابل ایسا دشمن تھا جس کی مشرق و مغرب کی دونوں بڑی طاقتیں وسیع حمایت کررہی تھیں۔ لوگوں کا محبوب قائد ، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی ان سے جدا ہوگیا تھا ۔جو لوگ ان مفاہیم کو درک نہیں کرسکے اور یہ سارے واقعات ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں اگر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین اور تشییع جنازہ کی تصویریں اور فلمیں دیکھیں اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی خبر سن کر آپ کے دسیوں چاہنے والوں اور شیدائیوں کی حرکت قلب اچانک رک جانے اور ان کی موت واقع ہوجانے اور اس سانحے کی تاب نہ لانے کے واقعات سنیں اور تشییع جنازے کے دوران شدت غم سے سینکڑوں بیہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں اسپتالوں اور طبی مراکز تک پہنچائے جانے کے مناظر، تصویروں اور فلموں میں دیکھیں تو ان کی توصیف کرنے سے عاجز رہ جائیں گے لیکن جنہیں عشق حقیقی کی معرفت ہے اور جنہوں نے عشق کا تجربہ کیا ان کے لئے یہ ساری باتیں اور واقعات سمجھ لینا مشکل نہیں ہے ۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی پہلی برسی کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کیا تھا "خمینی سے عشق تمام خوبیوں اور اچھائیوں سے عشق ہے"بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس میں دو گھنٹے لگے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کے لئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر تھے اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی شاگرد، اسلامی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں اور پندرہ خرداد کی تحریک کے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے اور جنہوں نے دیگر انقلابی جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے تمام مراحل میں ہر طرح کی سختیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کیا تھا، اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گيا مغربی ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمایت یافتہ عناصر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو شکست دینے کی برسوں کی کوششوں کےبعد مایوس ہوچکے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ امام کی رحلت کے بعد وہ اپنی سازشوں اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوسکیں گے لیکن ایرانی عوام کے فہم و فراست، ماہرین کی کونسل کے بروقت فیصلے اور اس فیصلے کی امام کے تمام پیروؤں اور چاہنے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت سے انقلاب دشمن عناصر کی تمام امیدوں پر پانی پھیر گیا اور نہ فقط یہ کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ان کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اسے نئي زندگی مل گئی۔ کہیں الہی افکار و نظریات اور حقائق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے!
پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عیدگاہ ) میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو، جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خداپرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کررہاتھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہارہا تھا ۔
درو دیوار پر سیاہ پرچم لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف صرف تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئي ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزاں کی یاد میں مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں ایک نورانی بلندی پر مرکوز تھیں۔ بسیجیوں (رضاکاروں) کی فریاد "یاحسین" نے جو یتیمی کا احساس اپنے سینے میں لئے تھے اور اپنا سر و سینہ پیٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائی بنادیا تھا اور چونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب حسینیۂ جماران میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دلنشین آواز نہیں سنائی دے گي اس لئے یہ غم انہیں مارے ڈال رہا تھا۔ لوگوں نے پوری رات مصلی بزرگ (عیدگاہ ) میں گزاری۔ 6 جون 1989 کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔
12 بھمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات ہیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے یکم فروری سنہ 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد 60 لاکھ بتائي تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد 90 لاکھ بتائي جبکہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دس سالہ قیادت کے دوران انقلاب سے دشمنی، آٹھ سالہ جنگ اور مغربی و مشرقی بلاکوں کی مشتکرہ سازشوں کی وجہ سے ایرانی عوام نے بے پناہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں اور اپنے بے شمار عزیزوں کو اس راہ میں قربان کیا تھا چنانچہ یہ فطری امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدریج کم ہوجاتا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے الہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر پورا یقین و اعتقاد تھا کہ اس دنیا میں زحمتوں ،مصیبتوں ، مشکلات ، فداکاری اور جانثاری کی عظمت ان بلند و گرانقدر مقاصد و اہداف کے برابر ہوتی ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر "بہشت زہرا" (تہران کے قبرستان) میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں انجام دی جائیں گی اور بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔
ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔
آثار سید روحالله خمینی
-
شرح دعای سحر
-
شرح حدیث رأس الجالوت
-
حاشیه امام بر شرح حدیث رأس الجالوت
-
التعلیقه علی الفوائد الرضویه
-
شرح حدیث جنود عقل و جهل
-
مصباح الهدایة الی الخلافة و الولایة
-
تعلیقات علی شرح فصوص الحکم و مصباح الانس
-
شرح چهل حدیث (اربعین حدیث)
-
سرالصلوة
-
آداب نماز (آداب الصلوة)
-
رساله لقاءالله
-
حاشیه بر اسفار
-
کشف الاسرار
-
انوار الهدایه فی التعلیقه علی الکفایه ۲ جلد
-
بدایع الدرر فی قاعده نفی الضرر
-
الرسائل العشره
-
رساله الاستصحاب
-
رساله فی التعادل و التراجیح
-
رساله الاجتهاد و التقلید
-
مناهج الوصول الی علم الاصول ۲ جلدی
-
رساله فی الطلب و الاراده
-
رساله فی التقیه
-
رساله فی قاعده من ملک
-
رسالة فی تعیین الفجر فی اللیالی المقمره
-
کتاب الطهارة - ۴ جلد
-
تعلیقة علی العروة الوثقی
-
المکاسب المحرمه ۲ جلد
-
تعلیقه علی وسیلة النجاة
-
رساله نجاة العباد
-
حاشیه بر رساله ارث
-
تقریرات درس اصول آیة الله العظمی بروجردی
-
تحریر الوسیله ۲ جلد
-
ترجمه تحریر الوسیله ۴ جلد
-
ترجمه تحریر الوسیله ۴ جلد
-
کتاب البیع - ۵ جلد
-
حکومت اسلامی یا ولایت فقیه
-
کتاب الخلل فی الصلوة
-
جهاد اکبر یا مبارزه با نفس
-
رساله توضیح المسائل
-
مناسک حج «احکام مطابق با فتاوای حضرت امام خمینی»
-
تفسیر سوره حمد
-
استفتائات ۳ جلد
-
دیوان شعر
-
سبوی عشق
-
ره عشق
-
باده عشق
-
نقطه عطف
-
محرم راز
-
مقام رهبری در فقه اسلامی با استفاده از کتاب البیع
-
مسائل امر به معروف و نهی از منکر از تحریر الوسیله
-
مسئله قضاوت از کتاب تحریر الوسیله
-
جهاد نفس از کتاب اربعین حدیث
-
رابطه نیت و اخلاص از کتاب اربعین حدیث
-
صحیفه امام «مجموعه آثار امام خمینی » ۲۲ جلد
-
صحیفه نور
-
وصیتنامه
-
لمحات الاصول
-
کوثر ۳ جلد
-
منشور روحانیت
-
وعده دیدار
-
فریاد برائت
-
آوای توحید
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی مختصر سوانح حیات
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے والد حجت الاسلام والمسلمین حاج سید جواد حسینی خامنہ ای مرحوم تھے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیخامنہ ایاٹھائیسصفر تیرہ سو اٹھاون ہجری قمری کو مشہد مقدس میں پیدا ہوئے۔
آپ اپنےخاندان کےدوسرے فرزند تھے۔ آپ کے والد سید جواد خامنہ ای کی زندگي دینی علوم کے دیگراساتذہ اورعلمائے دین کی مانند انتہائی سادہ تھی۔ان کی شریک حیات اور اولاد نے بھی قناعتاور سادہ زندگي گزارنے کے گہرے معنی ان سے سیکھے تھے اوراس پر عمل کرتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگي اور حالات کے بارے میں اپنی بچپن کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میرے والد ایک مشہور عالم دین تھے لیکن بہت ہی پارسا اور گوشہ نشین ...ہماری زندگي تنگ دستی میں بسر ہوتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہمارے گھر میں رات کا کھانا نہیں ہوتا تھا اور ہماری والدہ بڑی مشکل سے ہمارے لیے کھانے کا بندوبست کرتی تھیں اور ... وہ رات کا کھانا بھی کشمش اور روٹی ہوتی تھی۔
لیکن جس گھر میں سید جواد کا خاندان رہتا تھا اس کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
میرے والد صاحب کا گھر کہ جہاں میری پیدائش ہوئی اور میرے بچپن کے چار پانچ سال وہیں گزرے ، ساٹھ ستر میٹر کا ایک گھر تھا جو مشہد کے ایک غریب علاقے میں واقع تھا۔اس گھر میں صرف ایک ہی کمرہ اور ایک تنگ و تاریک سرداب(تہہ خانہ)تھا۔جب کوئی مہمان ہمارے والد سے ملنے کے لیے آتا ہمارے والد چونکہ عالم دین تھے اس لیے عام طور پر لوگ ان سے ملنے کے لیے آتے تھے تو ہم سب گھر والوں کوسرداب( تہہ خانہ ) میں جانا پڑتا اور مہمان کے جانے تک وہیں پر رہتے۔بعد میں میرے والد کے کچھ عقیدت مندوں نے ہمارے گھر کے ساتھ والی زمین خرید کر میرے والد صاحب کو دے دی اور پھر ہمارا گھر تین کمروں کا ہو گيا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایک غریب لیکن دیندار ، پاکیزہ اور علم دوست گھرانے میں تربیت پائی اور چار سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائي سید محمد کے ہمراہ مکتب بھیج دیے گئے تا کہ قرآن پڑھنا سیکھ لیں۔اس کے بعد دونوں بھائیوں نے تازہ قائم ہونے والے اسلامی اسکول دارالتعلیم دیانتی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
دینی درسگاہ میں
آپ ہائی اسکول کے بعد دینی درسگاہ میں داخل ہو گئے اور اپنے والد اور اس وقت کے دیگراساتذہ سے عربی ادب اور مقدمات(قواعد) کی تعلیم حاصل کی ۔آپ دینی درسگاہ میں داخلے اوردینی تعلیم کے انتخاب کے محرک کےبارے میں کہتے ہیں:
اس نورانی راستے کے انتخاب میں بنیادی عنصر اور محرک میرے والد کا عالم دین ہونا تھااور میری والدہ کی خواہش تھی۔ آپ نے جامع المقدمات ، سیوطی اور مغنی کی مانند عربی ادب کی کتابیں مدرسۂ سلیمان خان اور مدرسۂ نواب کے اساتذہ سے پڑھیں اور آپ کے والد بھی اپنے بچوں کی تعلیم پر نظر رکھتےتھے۔اسی دوران آپ نے کتاب معالم بھی پڑھی۔اس کے بعد آپ نے شرائع الاسلام اورشرح لمعہ اپنے والد سے اور ان کے بعض حصے آقا میرزا مدرس یزدی مرحوم سے پڑھےاور رسائل و مکاسب حاج شیخ ہاشم قزوینی سے اور فقہ و اصول کے دروس سطح اپنے والد سے پڑھے۔آپ نے حیرت انگیز طور پر صرف ساڑھے پانچ سال کے عرصے میں مقدمات اور سطح کے کورس مکمل کر لۓ۔آپ کے والد سید جواد مرحوم نے ان تمام مراحل میں اپنے چہیتے بیٹے کی ترقی و پیشرفت میں اہم کردار ادا کیا۔قائد انقلاب اسلامی نے منطق اور فلسفہ میں کتاب منظومہ سبزواری پہلے آیت اللہ میرزا جواد آقا تہرانی مرحوم اور بعد میں شیخ محمد رضا ایسی سے پڑھی۔
نجف اشرف کی دینی درسگاہ میں
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ، کہ جنہوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں مشہد میں عظیم مرجع آیت اللہ العظمی میلانی مرحوم سے فقہ اور اصول کا درس خارج پڑھنا شروع کیا تھا، سن 1957 میں مقدس مقامات کی زيارت کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے اور سید محسن حکیم مرحوم،سید محمود شاہرودی ، میرزا باقر زنجانی ، سید یحیی ، یزدی اور میرزا حسن بجنوردی سمیت نجف اشرف کے عظیم مجتہدین کے دروس میں شرکت کی۔آپ کو یہاں درس و تدریس اور تحقیق کا معیار پسند آیا اور نجف میں تعلیم جاری رکھنے کے اپنے فیصلے سے اپنے والد کو آگاہ کیا لیکن وہ راضی نہ ہوئے چنانچہ آپ کچھ عرصے کے بعد مشہد واپس لوٹ آئے۔
قم کی دینی درسگاہ میں
حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ سن 1958 سے لے کر سن 1964 تک قم کی دینی درسگاہ میں فقہ، اصول اور فلسفہ کی اعلی تعلیم میں مشغول رہے اور آیت اللہ العظمی بروجردی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ مرتضی حائری یزدی اور علامہ طباطبائی جیسے عظیم اساتذہ سے کسب فیض کیا۔1964 میں قائد انقلاب اسلامی کو اپنے والد سے خط و کتابت کے بعد پتہ چلا ان کے والد کی ایک آنکھ کی بینائی موتیا کے مرض کی وجہ سے جا چکی ہے آپ کو یہ خبر سن کر بہت دکھ پہنچا۔آپ قم کی عظیم درسگاہ میں رہ کر اپنی تعلیم کو جاری رکھنے اور مشہد واپس جا کر اپنے والد کی دیکھ بھال کرنے کے سلسلے میں شش و پنج کا شکار ہو گئے۔ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں اللہ کی رضا کیلۓ مشہد واپس جانا چاہیے اور اپنے والد کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔اس بارے میں آپ فرماتے ہیں:
میں مشہد گیا اور خدا نے مجھے بہت زیادہ توفیقات عنایت فرمائیں۔بہرحال میں اپنے کام اور ذمہ داریوں میں مشغول ہوگيا۔اگر مجھے زندگی میں کوئی توفیق حاصل ہوئی ہے تو میرا یہ خیال ہے کہ وہ اس نیکی کا صلہ ہے جو میں نے اپنے والد اور والدہ کے ساتھ کی تھی۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس دو راہے پر صحیح راستے کا انتخاب کیا۔آپ کے بعض اساتذہ اور ساتھی افسوس کرتے تھے کہ کیوں آپ نے اتنی جلدی قم کو چھوڑ دیا اگر وہ وہاں رہ جاتے تو آئندہ یہ بن جاتے وہ بن جاتے... لیکن مستقبل نے ظاہر کر دیا کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا اور الہی فیصلے نے لوگوں کے اندازوں سے کہیں بہتر ان کی تقدیر لکھی تھی۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ یہ پچیس سالہ باصلاحیت عالم دین جو اپنے والدین کی خدمت کے لیے قم چھوڑ کر مشہد واپس چلا گيا تھا، پچیس سال بعد ولایت امر مسلمین کے اعلی مقام و مرتبے پر پہنچ جائے گا؟
آپ نے مشہد میں بھی اپنی اعلی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور تعطیلات،جدوجہد،جیل اور سفر کے علاوہ 1968 تک مشہد کے عظیم اساتذہ خصوصا" آیت اللہ میلانی سے با قاعدہ طور پر تعلیم حاصل کی۔اسی طرح سن 1964 سے کہ جب آپ مشہد میں مقیم تھے ، تعلیم حاصل کرنے اور بوڑھے اور بیمار والد کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نوجوان طلبہ کو فقہ و اصول اور دینی علوم کی دیگر کتابیں بھی پڑھاتے تھے۔
سیاسی جدوجہد
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بقول خود ان کے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی ، اصولی ،سیاسی اور انقلابی شاگردوں میں سے ہیں لیکن ان کے ذہن میں طاغوت کے خلاف دشمنی اور سیاست و جدوحہد کی پہلی کرن عظیم مجاہد اور شہید راہ اسلام سید مجتبی نواب صفوی نے ڈالی۔جب نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ساتھ سن 1952 میں مشہد گئے تو انہوں نے مدرسہ سلیمان خان میں احیائے اسلام اور احکام الہی کی حاکمیت کے موضوع پر ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور شاہ اور برطانیہ کے مکر و فریب اور ملت ایران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ان دنوں مدرسہ سلیمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوی کی جوشیلی تقریر سے آپ بہت متاثر ہوئے ۔آپ کہتے ہیں:اسی وقت نواب صفوی کے ذریعے میرے اندر انقلاب اسلامی کا جھماکہ ہوا چنانچہ مجھے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پہلی آگ نواب صفوی مرحوم نے میرے اندر روشن کی۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے ہمراہ
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سن 1962 سے کہ جب آپ قم میں تھے اور محمد رضا شاہ پہلوی کی اسلام مخالف اور امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف امام خمینی کی انقلابی اور احتجاجی تحریک شروع ہوئي ، سیاسی جدوجہد میں شامل ہو گئے اور بے پناہ نشیب و فراز ، جلاوطنی ، قید و بند اور ایذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجہد کرتے رہے اور کسی مقام پر بھی نہیں گھبراۓ ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں پہلی ذمہ داری یہ سونپی کہ وہ ماہ محرم میں علمائے کرام کے تبلیغی مشن اور شاہ کی امریکی پالیسیوں کو آشکارہ کریں، ایران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے میں ان کا پیغام آیت اللہ میلانی اور خراسان کے علماء تک پہنچائيں ۔آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائي اور خود بھی تبلیغ کے لیے بیرجند شہر گئے اور وہاں تبلیغ کے ضمن میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کے تناظر میں پہلوی حکومت اور امریکہ کا پردہ چاک کیا چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک رات قید رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رہا کیا گيا کہ آپ منبر پر نہیں جائيں گے اور پولیس کی نگرانی میں رہیں گے۔پندرہ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بیرجند سے مشہد لاکر فوجی جیل میں ڈال دیا گيا اور وہاں دس روز تک کڑی نگرانی میں رکھا گیا اور سخت ایذائيں دی گئيں۔
دوسری گرفتاری
جنوری سن 1963 مطابق رمضان تیرہ سو تراسی ہجری قمری کو حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے۔کرمان میں دو تین دن ٹھہرنے ،تقریریں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاہدان چلے گئے۔آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریروں خصوصا" چھ بہمن کو شاہ کے جعلی ریفرنڈم اور انتخاب کی سالگرہ کے دن آپ کی تقریر کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ پندرہ رمضان کو امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے روز پہلوی حکومت کی شیطانی اور امریکی پالیسیوں کا پردہ چاک کرنے والی آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگيز تقریریں اپنے عروج پر پہنچ گئيں چنانچہ شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے تہران روانہ کر دیا۔رہبر بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو تقریبا" دو ماہ تک قزل قلعہ نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گيا۔ دوران قید آپ نے مختلف قسم کی ایذائیں اور توہین آمیز سلوک برداشت کیا۔
تیسری اور چوتھی گرفتاریاں
مشہد اور تہران میں آپ کے تفسیر و حدیث کے دروس اور اسلامی افکار و نظریات کا انقلابی نوجوانوں نے زبردست خیرمقدم کیا۔آپ کی ان سرگرمیوں سے شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک بھڑک اٹھی اور آپ کو گرفتار کرنا چاہا لہذا آپ نے سن 1966 میں تہران میں روپوشی کی زندگي اختیارکرلی تاہم ایک سال بعد یعنی 1967 میں آپ گرفتار کر لیے گئے ۔ رہائی کے بعد آپ کی انقلابی سرگرمیوں کے باعث ساواک نے آپ کو ایک بار پھر سن 1970میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔
پانچویں گرفتاری
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی ساواک کے ہاتھوں اپنی پانچویں گرفتاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
سن 1969 سے ایران میں مسلح تحریک کے آثار محسوس کیے جا رہے تھے۔ خفیہ اداروں کی میرے بارے میں حساسیت بھی بڑھ گئي تھی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی تحریک کا مجھ جیسے افراد سے تعلق نہ ہو۔ سن 1971 میں ایک بار پھر مجھے جیل میں ڈال دیا گيا۔جیل میں ساواک کے تشدد آمیز سلوک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ اسے مسلح تحریک کے اسلامی فکر کے مراکز سے جڑے ہونے پر سخت تشویش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے کہ مشہد اور تہران میں میرے نظریاتی اور تبلیغی مشن کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہائی کے بعد میرے تفسیر کے عام دروس اور خفیہ کلاسوں کا دائرہ مزید بڑھ گيا۔
چھٹی گرفتاری
1971 اور 1974 کے برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے تفسیر اور انقلابی نظریات کے دروس اور تقاریر مشہد مقدس میں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسین اور مسجد میرزا جعفر میں انجام پاتی تھیں جن میں انقلابی اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سمیت ہزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقیقی نظریات سے آگاہ ہوتے تھے۔آپ کے نہج البلاغہ کے درس کا رنگ ہی کچھ اور تھا آپ کے نہج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپی ہو کر لوگوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ جو آپ سے درس حقیقت اور جدوجہد کا سبق لیتے تھے ، ایران کے دور و نزدیک کے شہروں میں جا کر لوگوں کو ان نورانی حقائق سے آشنا کرکے عظیم اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتے۔ان سرگرمیوں کے باعث 1974عیسوی میں ساواک نے مشہد میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے گھر پر دھاوا بول دیا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کی بہت سی تحریروں اور نوٹس کو ضبط کر لیا۔یہ آپ کی چھٹی اور سخت ترین گرفتاری تھی۔آپ کو 1975 کے موسم خزاں تک قید میں رکھا گيا۔ اس عرصے کے دوران آپ کو ایک کوٹھڑی میں سخت ترین حالات میں رکھا گيا اور خود آپ کے بقول صرف وہی ان حالات کو سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے ان حالات کو دیکھا ہے۔جیل سے رہائي کے بعد آپ مشہد مقدس واپس آ گئے اور ماضی کی طرح علمی ، تحقیقی اور انقلابی عمل کو آگے بڑھایا۔ البتہ آپ کو پہلے کی طرح کلاسوں کی تشکیل کا موقع نہیں دیا گيا۔
شہر بدری
ظالم پہلوی حکومت نے سن 1977 کے اواخر میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو گرفتار کر کے تین سال کے لیے ایرانشہر شہر بدر کر دیا۔ سن 1978 کے وسط میں ایران کے مسلمان اور انقلابی عوام کی جدوجہد کے عروج پر پہنچنے کے بعد آپ شہر بدری سے آزاد ہو کر مشہد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پہلوی حکومت کے خلاف عوام کی جدوجہد کی اگلی صفوں میں شامل ہو گئے ۔
راہ خدا میں انتھک جدوجہداور سختیاں برداشت کرنے کا نتیجہ یعنی ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ظالم پہلوی حکومت کا سقوط اور اس سرزمین میں اسلام کی حاکمیت کے قیام کا مشادہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کیا۔
کامیابی سے قبل
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرس سے تہران واپسی سے پہلے ان کی طرف سے شہید مطہری، شہید بہشتی، ہاشمی رفسنجانی وغیرہ کی مانند مجاہد علما اور افراد پر مشتمل کمیٹی شورائ انقلاب اسلامی قائم کی گئی۔ حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر اس کمیٹی کے رکن بنے۔ شہید مطہری نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام آپ تک پہنچایا ۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ملتے ہی آپ مشہد سے تہران آ گئے۔
کامیابی کے بعد
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اپنی انقلابی اور اسلامی سرگرمیاں بدستور جاری رکھیں اس دوران آپ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور متعدد اہم کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہوئے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
٭ فروری 1979 میں اپنے ہم خیال مجاہد علماء اور ساتھیوں کے تعاون سے جمہوری اسلامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
٭ 1979 میں نائب وزیردفاع بنے۔
٭ 1979میں ہی پاسداران انقلاب اسلامی فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔
٭ 1979میں ہی بانی انقلاب اسلامی کی جانب سے دارالحکومت تہران کے امام جمعہ
منصوب ہوئے
٭ 1980 میں اعلی دفاعی کونسل میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نمائندےمقرر ہوئے
٭ 1979 میں پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی میں تہران کے نمائندے بنے
٭ 1970 میں امریکہ اور سابق سوویت یونین سمیت شیطانی اور بڑی طاقتوں کے اکسانے اور ان کی فوجی مدد سے ایران کی سرحدوں پر صدام کی جارحیت اور ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ شروع ہوتے ہی دفاع مقدس کے محاذوں پر فوجی لباس میں دشمن کے خلاف نبرد آزما ہوئے
٭ 1981 میں تہران میں واقع مسجد ابوذر میں انقلاب دشمن منافقین کےناکام قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے
صدر مملکت
ایران کے دوسرے صدر محمد علی رجائي کی شہادت کے بعد 1981 میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی طرح 1985 میں آپ دوسری بار صدر منتخب ہوئے۔
1981 میں ثقافتی انقلابی انجمن کے سربراہ بنے
1987 میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کی سر براہی سنبھالی
1989 میں آئین پر نظر ثانی کرنے والی کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے
امت کی قیادت و ولایت
رہبر کبیر انقلاب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد جون 1989 میں ماہرین کی کونسل نے اس اعلی عہدے اور عظیم ذمہ داری کے لیے آپ کو منتخب کیا۔ یہ انتخاب انتہائی مبارک اور صحیح تھا چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد آپ نے نہایت مہارت سے ملت ایران بلکہ مسلمانان عالم کی قیادت و راہنمائی کی اور یہ عظیم اور الہی فریضہ آج بھی بخوبی نبھا رہے ہیں۔
تصنیف و تالیف
1- طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن
2- از ژرفای نماز
3- گفتاری در باب صبر
4- چہار کتاب اصلی علم رجال
5- ولایت
6- گزارش از سابقہ تاریخی و اوضاع کنونی حوزہ علمیہ مشہد
7- زندگینامہ ائمہ تشیع(غیر مطبوعہ)
8- پیشوای صادق
9- وحدت و تحزب
10- ہنر از دیدگاہ آیت اللہ خامنہ ای
11- درست فہمیدن دین
12- عنصر مبارزہ در زندگی ائمہ علیہم السلام
13- روح توحید، نفی عبودیت غیر خدا
14- ضرورت بازگشت بہ قرآن
15- سیرت امام سجاد علیہ السلام
16- امام رضا علیہ السلام و ولایت عہدی
17- تہاجم فرہنگی(قائد انقلاب کے پیغامات اور تقریروں پر مشتمل کتاب)
18- حدیث ولایت(آپ کے پیغامات اور تقریروں پر مشتمل مجموعہ، اس کی اب تک نو جلدیں چھپ چکی ہیں)
19 اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترجمے
1- صلح امام حسن [ع] ،تصنیف آل یاسین۔
2- آیندہ در قلمرو اسلام، تصنیف سید قطب۔
3- مسلمانان در نہضت آزادی ہندوستان، تصنیف عبدالرحیم نمری نصری۔
4- ادعا نامہ علیہ تمدن غرب، تصنیف سید قطب۔
5- اور ۔ ۔ ۔ ۔
آيت اللہ العظمي بروجردي کي مختصر سانحہ حيات
آیت اللہ بروجردی (رح) ماہ صفر 1292 ہجری قمری میں بروجرد نامی شہرمیں پیدا ہوۓ ۔ آپ کےوالد کا نام سید علی طباطبائی تھا ۔ آپ کا سلسلہ نسب امام حسن مجتبی (ع) کے بیٹے حسن مثنی سے جا ملتا ہے ۔
آپ کے اجداد میں سید محمد بروجردی گیارھویں صدی ہجری کے معروف دانشمند اور بزرگ گزرے ہیں ۔
سات سال کی عمر میں آپ نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کیغرض سے آپ نے ایک قریبی مدرسےمیں داخلہ لیا ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 1310 ہجریقمریکو ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے آپ نے "" دارالعلم اصفھان "" میں داخلہ لیا ۔
اصفہان شہر کو اس دور کے ایک معروف اور اہم علمی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔
آپ نے اپنی زندگی کے کچھ سال کسب تعلیم کی غرض سے اس شہر میں گزارے ۔ ان سالوں میں آپ کو اعلی علمی قابلیت کے حامل ماہر اساتذہ کی شاگردی میں رہنے کا شرف حاصل ہوا ۔ آپ کے اساتذہ میں ابوالمعالی ، سید مدرس ،آیت اللہ درچہ جیسی اعلی علمی شخصیات شامل تھیں جن سے آپ نے فقہ اور عربی ادب کی تعلیم حاصل کی ۔ اسی طرح کچھ سال حکیم قشقائی اور حکیم کاشانی سے حکمت ،فلسفے ،کلام اور منطق کا علم حاصل کرتے رہے ۔
1314 ہجری قمری میں جب آپ کی عمر بائیس سال کی تھی تب اپنے والد گرامی کے حکم سے بروجرد واپس تشریف لاۓ ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے والد انہیں مزید تعلیم کی غرض سے نجف اشرف بھیجنا چاہتے ہیں جو کہ شیعوں کا سب سے بڑا علمی مرکز تھا ۔ لیکن جب آپ واپس گھر پہنچے تو آپ کے خاندان نے آپ کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا ۔
شادی کے بعد ایک بار پھر آپ نے اصفہان شہر کا رخ کیا اور مزید پانچ سال علوم فنون کے شعبہ میں درس و تدریس میں گزارے ۔ 1318 ہجری قمری میں ان کے والد نے ایک بار پھر ان کو بروجرد بلوایا ۔ اس بار آپ کے والد نے آپ کو نجف اشرف بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا جسے آپ نے نہایت خوشی سے قبول کیا ۔ اس وقت آپ کی عمر 27 سال تھی اور فقہ ، اصول اور حکمت میں آپ کا شمار وقت کے بہترین عالمین دین میں ہوتا تھا ۔
آپ نے کچھ سال نجف میں مولانا خراسانی ،علامہ یزدی اور آقا شریعت سے ""خارج فقہ و اصول "" کے شعبہ میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے تیس سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا اور حوزہ نجف میں علماء کرام کو تدریس کرتے رہے ۔
دس سال عتبات میں گزارنے کے بعد سن 1328 ہجری قمری میں عراق سے واپس بروجرد تشریف لے آۓ ۔ پھر زندگی کے تیس سال آپ نے اپنے آبائی مقام پر تدریس و تالیف اورعلم کی ترویج میں گزارے ۔ اسی دوران ""حوزہ قم "" میں آپ کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا اسی لۓ "" حوزہ علمی قم "" کے اساتذہ میں بھی آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ آخرکار آیت اللہ حائری کی وفات کے بعد حوزہ قم کے بزرگ استاد کی جگہ آپ کو نصیب ہوئی ۔
آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں ہی شیخ شلتوت مفتی اور رئیس جامع الازھر نے اپنے ایک فتوے کے ذریعے فقہ جعفریہ کو مذاھب اسلام کے فقوں میں شامل کیا اور اس کی تائید کی گئی ۔ مثلا شیخ مفید ،سید مرتضی ، شیخ طوسی ، شیخ طبرسی اور علامہ بحرالعلوم کی طرح اسلامی علوم پر مکمل عبور رکھتے تھے ۔
فقہ میں آپ کا طریقہ کار درج ذیل چند نکات پر مشتمل تھا ۔
1۔ قدیم لوگوں کی آراء کو اہمیت دیتے ۔
2۔ اھل سنت کی روایات اور فتوؤں کو اہمیت دیا کرتے تھے۔
3۔ پرانی روایات اور دلیلوں پر انحصار کیا کرتے تھے ۔
4۔ مسائل کی تہہ اور ریشے تک پہچنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔
آپ نے شوال کے مہینے سن 1380 ہجری قمری میں وفات پائی ۔ اس وقت آپ کی عمر 90 سال تھی اور دل کی بیماری آپ کی موت کا سبب بنی ۔ آپ کو قم کی مسجد اعظم کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔
آیت اللہ الظمی بروجردی کی تصانیف :
آپ کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں ۔
٭حاشیہ علی کفایہ الاصول
٭ المھدی فی کتب اھل السنھ
٭الاثار المنظومھ ،انیس المقلدین
٭مجمع الفروغ ،مناسک الحج
٭جامع احادیث الشیعہ
٭ مستدرک فہرست منتخب الدین
٭تجرید اسانید الاستیصار
ملا صدرا
قدیم الایام سے سعادت ، کمال ، خیر اور انسانی لذات کی بحث فلاسفہ، خصوصا اخلاق اور سیاست کے فلاسفہ کے درمیان گفتگو کا مرکز رہی ہیں، اس سلسلے میں بہت سے نظریات بیان ہوئے ہیں جن کے درمیان حکمت متعالیہ کے بانی صدر الدین شیرازی کے نظریات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
ملا صدرا کی نظر میں "وجود" صرف خیر (خیر محض) اور حقیقی سعادت "وجود" کو درک کرنےمیں ہے، حکمت متعالیہ میں، سعادت ، کمال ، لذت اور خیر کے معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اوران کو حاصل کرنا "وجودی کمال" شمار ہوتا ہے، اور ان تک پہنچنے کی راہ، وجود کے باطن اورعینی حقیقت کا سمجھنا اور ادراک ہے۔ جو قوت ادراک سے موافق ہے۔ ادراک بھی مدرَکات اورقوت ادراک کے لحاظ سے مختلف ہوتاہے، پس ہر قوت اپنے ادراک کے تناسب سے خاص لذت اورسعادت رکھتی ہے ، نتیجہ میں لذت اور سعادت کی انتہا اس قوت سے متعلق ہے جو ادراک ، مدرَک،
مدرِک کے لحاظ سے سب سے طاقتور ، شدید، دائم اور کثیر ہو اور یہ قوت عاقلہ کے سوا اور کوئی قوت نہیں ہے، پس انسان کی حقیقی سعادت کے نظریہ کی تعریف یوں ہے: عقلی کمالات اور صورتوں کا ادراک۔ لیکن عقل عملی کے پہلو میں نفس کا مستقل ہونا اور نفسانی اعتدلال پیدا ہونا اور افراط و تفریط سے پرہیز ، حقیقی سعادت کے معیار سمجھے جاتے ہیں۔
تفصیلی جوابات
قدیم الایام سے ، سعادت ، کمال ، خیر اور انسانی لذات کی بحث فلاسفہ ، خصوصا اخلاق اور سیاست کے فلاسفہ کے درمیان جاری ہے، سعادت کے وسیع مفہوم کا استعمال اس سلسلے میں مختلف نظریات کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔ ان نظریات کے درمیان فلسفہ حکمت متعالیہ کے بانی صدر الدین شیرازی کا نظریہ کافی اھمیت کا حامل ہے، اس کے بارے میں ملا صدرا کے بیانات اتنے وسیع ہیں کہ اس مختصر مقالہ میں اس کے بارے میں مفصل بحث کرنا ممکن نہیں ہے، لہذا اختصار کو مد نظر رکھ کر صرف اسی مسئلہ کی وضاحت کی جائے گی اور سوال کا جواب واضح ہونے کیلئے پہلے ملا صدرا کی نظر میں سعادت کی تعریف کو بیان کیا جائے گا ۔ ملا صدرا کی نظر میں حقیقی سعادت "وجود" اورر "وجود کا ادراک" ہے، لیکن چونکہ وجود اپنے مراتب میں کمال اور نقص کے لحاط سے مختلف ہے، لہذا سعادت بھی اپنے مراتب میں مختلف ہے، جو سعادت وجود اتم اور کامل میں موجود ہے وہ اتم اور کامل ہے اور جتنا وجود ناقص ہوتا جائے گا (اتنی ہی سعادت کم ہوتی جائے گی) چونکہ وہ شر اور شقاوت سے ملا ہوا ہے تو سعادت اور خیر بھی اس میں کم ہوگی، ملا صدرا کی نظر میں اتم موجودات ، خداوند متعال کا وجود ہے، اس کے بعد عقول مفارق، پھر نفوس کا وجود جو عقول کے بعد والے مرتبہ میں ہیں، یہاں تک ھیولیٰ اولی تک پہنچ جاتا ہے اور زمان اور حرکت اور جسمی صورت اور طبایع۔۔۔
جیسا کہ بیان ہوا چونکہ موجودات مختلف ہیں ، سعادت جو کہ وجود کا ادراک ہے وہ بھی مختلف ہے اور جیسا کہ قوات عقلیہ کا وجود، قوات حیوانی سے کامل اور طاقتور ہے ان کی سعادت بھی کامل اور ان کا لذت اور عشق بھی کامل ہے ، ملا صدرا "وجود" کو "خیر محض" جانتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ، خیر کے معنی وہ ہے جو عقلاء کے پاس موثر ہے اور اشیاء اس کے مشتاق ہیں ، اور موجودات اس کو طلب کرتے ہیں ، اور اس کے گرد گھومتے ہیں ، (وجود سے ) ملا صدرا کی مراد اس کی اصل اور باطن ہے نہ کہ اس کاذھنی مفہوم۔ دوسری جگہ ملاصدرا لذت کو مدرِک کا خاص کمال جانتے ہیں جیسا کہ درد اور رنج کو مدرِک کے ساتھ تضاد میں جانتے ہیں۔
بہ الفاظ دیگر، لذت کو ملائم احساس جانتا ہے،ملا صدرا اس بات کے قائل ہیں کہ جب ہمارے نفوس کمال پاتے ہیں اور طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اپنے بدن کے ساتھ روابط اور علائق سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ اپنی حقیقی ذات کی طرف لوٹتے ہیں اور اس صورت میں اسے ایک ایسی لذت اور سعادت حاصل ہوتی ہے جوغیر قابل وصف اور حسی لذت کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے کیونکہ لذت کے اسباب اور عقلی ادراک ، حسی ادراک کے لوازم اور اسباب سے کامل تر اور طاقتور ہوتے ہیں۔
اس بناء پر حکمت متعالیہ میں سعادت، کمال لذت اور خیر کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اور ان کو حاصل کرنا کمال وجودی کے معنی میں ہے اور ان تک پہنچنے کا طریقہ وجود کی گہرائی کا ادراک اور اس کی حقیقت ہے جو ادراکی قوت سے سازگار ہو۔جیسا کہ ہم سعادت کی تعریف سے سمجھ گئے ، سعادت ادراک کی اقسام میں سے ہے، ادراک بھی قوات اور مدرَکات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ پس ہر قوت اپنے ادراک کے تناسب سے ، ایک خاص لذت اور سعادت رکھتی ہے، نتیجہ کے طور پر لذت اور سعادت کی بلندی اس قوت سے متعلق ہے کہ جو ادراک ، مدرِک اور مدرَک کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ، شدید ، دائمی اورکثیر ہو، جس قوت میں یہ خصوصیات ہوں تو اسے بہترین سعادت اور کمال ، سب سے زیادہ لذت اور بلندترین خیر حاصل ہوگا اور وہ سب سے طاقتور وجود ہوگا۔ اور وہ قوت، "قوت عاقلہ" کے علاوہ کوئی اور قوت نہیں ہے۔
پس حقیقی سعادت ، عقلی ادراک ہے، نفس اپنے نظریاتی پہلو میں اشیاء کے حقایق کا بعینہ علم حاصل کرتا ہے اور عقلی اور نورانی ذاتوں کا مشاھدہ کرتاہے۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے عقلی قوت ادراکی قوات اور حسی اعضاء سے اعلی اور شریف تر ہے، پس سعادت اور عقلی لذت اتم ہے لھذا نظری پہلو میں سعادت حقیقی ، صورتوں کے ادراک اور عقلی کمالات سے عبارت ہے،اور عقل عملی کے پہلو میں نفس کا استقلال اوراس کا معتدل ہونا، افراط و تفریط سے دوری کرنا حقیقی سعادت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی ادنی خواہشات کے قید سے آزاد ہوجائے اور اپنے اندروںی خواہشات کے درمیان اعتدال پیدا کرے۔ اور شایستہ اور پسندیدہ سلوک کی طرف قدم بڑھائے اور اخلاقی فضائل کو اپنے وجود میں میں نفسانی عادات کی حد تک پرورش دے ۔ تو اس صورت میں وہ اپنی باطنی آزادی اور عدالت تک پہنچ سکتا ہے اور یہ عملی پہلو میں انسان کی حقیقی سعادت کے حدود و صغور ہیں۔ پس اگر انسان نظری پہلو میں ، صورتوں کو اچھی طرح درک کرسکے ، اور عملی پہلو میں گناہ نہ کرے ، اور پرھیزگار بنے اور باطن کے عملی پہلو میں اخلاق اور پسندیدہ ملکات کی پرورش کرے تو وہ اپنے اندر نشاط اور باطنی آرام تک پہنچ جائے گا۔ کیونکہ نفس ان معقولات اورملکات کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے اور ان کے ساتھ متحد رہتا ہے۔تو اس طرح انسان دنیا اور آخرت میں سعادت مند ہوگا۔حکمت متعالیہ میں ملاصدرا کا یہ نظریہ اصالت وجود کے مانند ، اور وجود کے مراتب مشکک ہونے کے مانند ، وجود کے خیریت اور اتحاد عاقل و معقول پر استوار ہے۔ اختصار کے پیش نظرہم ان مفاھیم کی وضاحت سے صرف نظر کرتے ہیں۔
صدر المتاھلین نے سعادت کے مراتب کو ، نفس کی حرکت جوھری اور عقل نظری کے مراتب کے لحاظ بیان کیا ہے
اور وہ فرماتے ہیں:
اولا: انسانی نفس اپنی خلقت کی آغاز میں قدرتی طور پر عقلی معانی کو درک کرنے اور فعلیت تک پہنچنے کی استعداد )طاقت( رکھتا ہے۔ لیکن بدیھی اور نظری معقولات سے فاقد ہوتا ہے ، بہ الفاظ دیگر نفس "محض استعداد " ہے اور ہر طرح کی عقلی صورت کا فاقد ہے۔ نفس کے اس مرتبہ کو "عقل ھیولایی" کہتے ہیں۔
ثانیا: جب نفس کے وہ معقولات جو سب آدمیوں کے درمیان مشترک ہیں حاصل ہوجائیں، جیسے کہ اجتماع نقیضین کا محال ہونا ، کل کا جزء سے بڑا ہونا وغیرہ ۔ تو قدرتی طور پر اس کے ساتھ نفس میں غور و فکر کرنے کی طاقت بھی حاصل ہوگی، اس مرتبہ کو "عقل بالملکہ" کہتے ہیں۔ ملا صدرا کے نظریہ کے مطابق انسان کی سعادت کا آغاز یہیں ہی سے ہوتا ہے کیونکہ انسان اپنی فعلی حیات میں مادہ سے تکیہ کئے بغیر فعلیت تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد جب نفس نظری معقولات کو استدلال اور تعریف سے حاصل کرتا ہے تو وہ " عقل بالفعل " بنتا ہے۔ اور جب نفس ان معقولات کو مبدا فعال ) عقل فعال( سے متصل ہوکر حاصل کرتا ہے تو وہ "عقل مستفاد" بن جاتا ہے۔
پس ملاصدرا عالم مادہ کی انتھاء کو انسانی تخلیق جانتے ہیں اور انسانی وجود کا مقصد عقل مستفاد تک پہنچنا ہے جو خداوند متعال کی معرفت اور پہچان ہے۔ اور نتیجہ کے طور پر ملا صدرا کی نظر میں حقیقی سعادت، معقولات کا نظری ادراک ہے جس کی بلندترین حد ، عقل مستفاد اور خداوند متعال کی شناخت اور پہچان ہے۔
[1] فلسفی اصطلاح میں ھیولی اس موجود کو کہتے ہیں جو سب سے ناقص ،موجود ہے اور عدم سے نزدیک تر ہوتا ہے (مترجم)
[2] صدر المتالھین ، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعۃ، ج ۹ ص ۱۲۱ ، طبع سوم ، دار احیاء الثرات ، بیروت ، ۱۹۸۱ھ۔
[3] ایضا ج ۱ ص ۳۴۱
[4] ایضا ج ۴ ص ۱۳۳۔
[5] ایضا ، ج ۹ ص ۱۳۲
[6] ایضا ج ۹ ، ص ۱۳۶
[7] صدر المتاھلین ، المبدا و المعاد ، آشتیانی ، سید جلال الدین ، ص ۳۷۷، ۳۷۸، انجمن حکمت و فلسفہ، ایران، تھران، ۱۳۵۴ ش۔
[8] وجود کے مراتب کے مشکک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وجود ، ایک روشنی کی طرح ہے جو کم اور زیادہ ہوتا ہے جیسے سورج کی روشنی ، بجلی کے بلب کی روشنی ، شمع کی روشنی ،
[9] المبداء و المعاد، ص ۲۷۱
[10] المبداء و المعاد ، ص ۳۷۳ - ۳۷۴
آیة اللہ جناب شیخ حسن حسن زادہ آملی
آپ قم کے مشھور علماء میں سے ھیں جو فلسفہ ،عرفان ، نجوم ، ریاضیات، شعر و ادبیات کی برجستہ شخصیت کے حامل ھیں اور ان علوم کے متعلق بھت ساری گرانبھا کتابیں تحریرفرمائیھیں ۔
آپ نے ۱۳۴۷ھ قمری مطابق ۱۹۲۹ء میں ابرا میں (جو شھر لاریجان آمل میں واقع ھے) آنکھ کھولی ۔ آپ کا اصلی نام حسن بن عبد اللہ طبری آملی ھے اور حسن زادہ آپکی عرفیت ھے ۔
حوزہ کے مقدماتی علوم اور ان علوم کو جو طلاب کے درمیان رائج ھیں آمل کی جامع مسجد میں حاصل کیا۔ اس عرصہ میں جو چھہ سال کا تھا آپ نے آیة اللہ مرزا ابوالقاسم فرسیو،آیة اللہ غروی ، شیخ احمد اعتمادی ، شیخ ابو القاسم رجائی لتیکوھی، شیخ عزیز اللہ طبرسی اور مرحوم عبداللہ اشراقی سے کسب فیض کیا ۔ اسکے بعد ۲۲ سال کے سن میں تھران تشریف لے گئے اور متعدد آیات عظام مرزا ابوالحسن شعرانی ، جناب مرزا مھدی الھی قمشہ ای ، جناب شیخ محمد تقی آملی ، میرزا ابوالحسن رفیعی قزوینی ، شیخ محمد حسین فاضل تونی ،مرزا احمد آشتیانی اور سید احمد لواسانی کے محضر مبارک میں زانوئے ادب تہ کیا ۔
۱۳۴۲ ھ ش میں قم تشریف لائے اور علامہ سید محمد حسین طباطبائی اور انکے بھائی سید حسن طباطبائی اور سید مھدی قاضی طباطبائی سے مستفیض ھوئے اور اسی وقت سے آج تک حوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس و بحث و تحقیق وغیرہ میں مشغول ھیں ۔
آپ کی پھلی کتاب "" تصحیح و اعراب گذاری ونصاب الصبیان "" ھے ۔ آپ سے متعلق کتابوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے ۔ تالیف مستقل ، شرح ، حواشی و تعلیقات، دوسروں کی کتابوں و رسالوں کی تصحیح ۔
آیت الله مرعشی نجفی
آیت الله مرعشی نجفی(علیه الرحمه) نے عالم اسلام کی ایک طولانی زمانه تک شایان شان خدمت کی هے،موصوف کی ایک بهترین کارکردگی دینی مدارس کی بنیاد ڈالنا تھا، سن 1376هجری قمری
میں مرحوم حاج مهدی ایرانی کے ذریعه مدرسه مهدیه کی داغ بیل ڈالی گئی لیکن اُس کی ناظر اور مسئول آیت الله مرعشی نجفی قرار پائے، خستگی ناپذیر فقیه نے مدرسه کی تکمیل میں انتهک کوششیں کی اور مدرسه کے کتابخانه کی بنیاد ڈالی جس میں دو هزار جلد کتابیں موجود تھیں، سن 1389 هجری قمری میں دو منزله عمارت پرمشتمل مدرسه مومنیه بنایا، اور اُس کے لئے بهی کتابخانه بنایا جس میں 3500 کتابیں موجود تهیں،
سن 1400هجری قمری میں میں تین منزله عمارت پر مشتمل مدرسه شهابیه بنا اسی طرح سن 1383هجری قمری میں تین منزله عمارت پر مشتمل مدرسه مرعشیه بنایا گیا اور ان کی نظارت اور مسئولیت بهی موصوف کے ذمه رهی۔
آیت الله العظمی مرعشی نجفی کا کتابخانه ملک کے عظیم الشان کتابخانوں میں اور کتابخانه مجلس شورای اسلامی وکتابخانه آستانه قدس رضوی (مشهد) کی ردیف میں هے، اِس کتابخانه میں عالم اسلام کے بهت سے (نایاب) قلمی نسخے موجود هیں، جن میں سے متعدد کتابوں کے نسخے صدیوں پرانے تاریخ کے عظیم الشان اور بهت قیمتی نسخے هیں۔
آیت الله مرعشی نجفی نے اپنی جوانی کے عالم میں جب وه حوزه علمیه نجف میں مشغول تعلیم تھے، کتابوں کے قلمی نسخے جمع کرنے شروع کئے، کیونکه موصوف بهت سے اسلامی منابع اور قلمی نسخوں کو نابود اور غارت هوتے دیکھ رهے تھے، چنانچه وه بے چین هوگئے اور طلبگی کے بهت هی کم شهریه کے باوجود قلمی کتابوں کی خریداری شروع کردی، تاکه اسلامی ثقافت کے اِس عظیم سرمایه کو اغیار کے هاتھوں غارت هونے سے بچائیں، بعض اوقات موصوف راتوں کو ایک چاولوں کے کارخانه میں کام کرتے تھے، دن میں استیجاری روزه رکھتے تھے اور رات میں نماز استیجاری پڑھتے تھے تاکه قلمی کتابوں کو خرید سکیں، جیسا که موصوف اپنی ایک تحریر میں فرماتے هیں:
«هم ایک دن مدرسه سے (صحن علوی کے سامنے) بازار کی طرف چلے اور جیسے هی بازار میں قدم رکھا تو ایک انڈے فروخت کرنے والے خاتون پر نظر پڑی جو دیوار کے پاس پاس بیٹھی هوئی تھی اوراُس کی چادر کے نیچے سے کتاب کا ایک حصه دکھائی دے رها تھا، هماری دل کو اتنا جھٹکا لگا که کچھ دیر تک کتاب پر نظریں جمائے دیکھتے رهے اور پهر صبر نه کرسکے، سوال کیا: یه کیا هے؟ اُس خاتون نے جواب دیا: بکنے والی کتاب هے، فورا هی میں نے کتاب لی اور تعجب کے ساتھ اُسے دیکھا تو معلوم هوا که وه علامه عبدالله افندی کی کتاب «ریاض العلماء» کا نایاب نسخه هے که جو کسی کے پاس نهیں تھا، یعقوب کو یوسف مل جانے کی طرح بهت هی تعجب اور حیرت سے سوال کیا: اِسے کتنے میں فروخت کرو گی؟ اُس نے کها: پانچ روپیه میں، هم چونکه خوشی سے پهولے نهیں سما رهے تھے فورا هی اُس سے کها: میری ساری پونجی سو روپیه هے کیا تم اِس کتاب کو سو روپیه میں مجھے دے سکتی هو؟ چنانچه اُس عورت نے خوشی سے قبول کرلیا، اُسی موقع کاظم دجیلی آپهنچا جو کتاب خریدنے میں برطانویوں کا دلال تھا، وه قدیمی کمیاب اور نادر کتابوں کو هر طریقه سے حاصل کرتا تھا اور نجف اشرف میں برطانوی حاکم «میجر» کے پاس لے جاتا تھا اور وه اِس طرح کی کتابوں کو لندن کتابخانه میں بھیج دیتا تھا، چنانچه کاظم نے زبردستی میرے هاتھ سے کتاب لے لی اور اُس خاتون سے کها: میں اِس سے زیاده میں یه کتاب خرید لوں گا اورپهر اُس نے هم سے زیاده قیمت لگائی، اُس موقع پر میں نے غم و اندوه کے عالم میں حضرت امیرالمومنین علیه السلام کے حرم کی طرف رخ کیا اور آهسته سے عرض کی:
«اے میرے مولا و آقا! میں اِس کتاب کو خرید کر آپ کی خدمت کرنا چاهتا هوں، لهذا آپ اِس بات پر راضی نه هوں که یه کتاب میرے هاتھ سےنکل جائے»۔
ابهی میری گفتگو تمام نه هوئی تھی که اُس خاتون نے اُس دلال کی طرف رخ کرکے کها: یه کتاب میں نے انھیں فروخت کردی هے، اب تمهیں فروخت نهیں کرسکتی۔ یه سن کر کاظم دلال هار مان کر غصه میں وهاں سے چلا گیا۔۔۔ همارے پاس 20 روپیه سے زیاده نهیں تھے، هم نے اپنے پرانے کپڑے اور گھڑی کو فروخت کر ڈالا تاکه کتاب کے پیسه جمع کریں، لیکن کچھ هی دیر کے بعد کاظم دلال چند پولیس والوں کے ساتھ آیا اور انھوں نے مدرسه پر حمله بول دیا، اور همیں پکڑ کر اُس برطانوی «میجر» کے پاس لے گئے، اُس نے پهلے هم پر کتاب کی چوری کا الزام لگایا اوراُس نے بهت زیاده چیخ پکار سے کام لیا ۔۔۔ اُس کے بعد اُس نے حکم دیا که همیں قیدخانه میں بهیج دیا جائے، چنانچه اُس رات قیدخانه میں خداوندعالم سے راز و نیاز کیا تاکه وه کتاب جهاں چھپائی هے محفوظ رهے، دوسرے روز شیخ الشریعه کے نام سے مشهور مرجع عظیم الشان مرزا فتح الله نمازی اصفهانی نے هماری آزادی کے لئے مرحوم آخوند خراسانی کے بیٹے مرزا مهدی کو چند لوگوں کے ساتھ حاکم شهر کے پاس بھیجا، آخرکار نتیجه یه هوا که همیں زندان سے آزاد کردیا گیا البته اِس شرط کے ساتھ که ایک ماه بعد کتاب برطانوی حاکم کو دیدیں۔
آزاد هونے کے بعد تیزی سے مدرسه کی طرف روانه هوئے اور اپنے طلباء احباب کو جمع کیا اور ان سے کها: ایک اهم کار انجام دینا هے جو اسلام اور شریعت کی خدمت هے! طلباء نے کها: کام کیا هے؟ هم نے کها: اِس کتاب کی نسخه برداری، چنانچه سب اِس کام میں مشغول هوگئے اور هم نے مهلت تمام هونے سے پهلے اِس کتاب کے چند نسخه تیار کرلئے۔۔۔»
آیت الله مرعشی نجفی نے جب قم کی طرف هجرت کی تو اپنے ساتھ وه قلمی نسخے بھی ایران لے آئے اور قم میں بھی نایاب اور قدیمی کتابوں کے نسخوں کی خریدار میں لگ گئے، ایک مدت بعد مکان میں جگه کم هونے کی وجه سے کتابوں کو مدرسه مرعشیه میں پهنچادیا، کچھ مدت بعد اِس مدرسه کی تیسری منزل پر کتابخانه بنایا گیا، جو 15 شعبان سن 1386هجری قمری میں 10000 قلمی کتابوں کے ساتھ افتتاح هوئی۔
طلاب کرام اور علمائے عظام کی طرف سے کتابوں کے مطالعه کا شوق و ذوق، نیز کتابخانه میں جگه کی کمی نیز جدید کتابوں کی خریداری اِس بات کا سبب بنی که موصوف نے (موجوده کتابخانه) کی بنیاد ڈالی جو 15 شعبان سن 1394 هجری قمری میں 16000 مطبوعه اور قلمی کتابوں کے ساتھ افتتاح هوئی۔