
شیخ سعدی ؒ
سعدي کے زمانے ميں مسلمانوں کے بے شمار مدرسے بلاد اسلام ميں کھلے ہوئے تھے۔شيخ سعدي اور علامہ ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزيشيخ کو بچپن سے فقر اور درويشي کي طرف زيادہ ميلان تھا
شيخ کي جادو بياني اور فصاحت و بلاغت کا چرچا اس کي زندگي ہي ميں تمام ايران، ترکستان، تاتار اور ہندوستان ميں اس قدر پھيل گيا تھا کہ اس زمانے کي حالت پر لحاظ کرنے کے بعد اس پر مشکل سے يقين آتا ہے- خود شيخ بھي گلستان کے ديباچے ميں کہتا ہے "ذکر جميل سعدي کہ در افواہ افتادہ وصيت سخنش کہ در بسيط زمين رفتہ"- شيراز اور کاشغر ميں کچھ کم سولہ سو ميل کا فاصلہ ہے- پہلے اس سے کہ کاشغر ميں پہنچے، وہاں کے چھوٹے بڑے اس کے کمالات سے واقف تھے-
جس زمانے ميں شيخ کاشغر پہنچا ہے، غالبا يہ وہ زمانہ ہے کہ چنگيز خان چيني تاتار کو خوارزميوں سے فتح کر چکا ہے اور سلطان محمئ خوارزم شاہ کے ساتھ چند روز کے ليے اس کي صلح ہو گئي ہے- جب شيخ کاشغر کي جامع مسجد ميں گيا تو وہاں ايک طالب علم مقدمہ زمخشري ہاتھ ميں ليے زبان سے کہ رہا تھا کہ "ضرب زيد عمروا" شيخ اس سے چہل کي باتيں کرنے لگا" اور کہا کيوں صاحب! خوارزم و خطا ميں صلح ہو گئي مگر زيد اور عمر کي خصوصيت بدستور چلي جاتي ہے؟ طالب علم ہنس پڑا اور شيخ کا وطن پوچھا- فرمايا "خاک پاک شيراز"- اس نے کہا "کچھ سعدي کا کلام ياد ہے؟" شيخ نے بطريق مزاح کے بعد کہا " سعدي کا زيادہ تر کلام فارسي ہے، اگر کچھ اس ميں سے ياد ہو تو پڑھے جن ميں سے ايک يہ ہے-
شعر
اے دل عشاق بدام تو صيد
ما بتو مشغول تو با عمرو زيد
صبح کو جب شيخ نے کاشغر سے چلنے کا ارادہ کيا، کسي نے اس طالب علم سے کہ ديا کہ سعدي يہي شخص ہے- وہ بھاگا ہوا شيخ کے پاس چلا آيا اور نہايت افسوس کيا کہ پہلے سے آپ نے اپنا نام نہ بتايا کہ ميں آپ کي خدمت گذاري سے سعادت حاصل کرتا- اگر اب بھي چند روز شہر ميں چل کر قيام کيجيے تو ہو لوگ خدمت گذاري سے مستفيد ہوں- اس کے جواب ميں آپ نے يہ اشعار پڑھے-
بزرگے ديدم اندر کوہسارے
قناعت کردہ از دنيا بغارے
چرا گفتم بہ شہر اندر نيائي
کہ بارے بند از دل بر کشائي
بگفت آنجا پري رويان نغزند
چو گل بسيار شد پيلان بلغزند
شیخ سعدی شیرازی کے اقوال
زندگی کی درازی کا راز صبر میں پوشیدہ ہے۔
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اولاد کو اچھے اخلاق سکھاؤ۔
اگرچہ انسان کو مقدر سے زیادہ رزق نہیں ملتا لیکن رزق کی تلاش میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
شیر سے پنجہ آزمائی کرنا اور تلوار پر مکہ مارنا عقلمندوں کا کام نہیں۔
موتی اگر کیچڑ میں بھی گر جائے تو بھی قیمتی ہے اور گرد اگر آسمان پر بھی چڑھ جائے تو بھی بے قیمت ہے۔
جو شخص دوسرے کے غم سے بے غم ہے آدمی کہلانے کا مستحق نہیں۔
دشمن سے ہمیشہ بچو اور دوست سے اس وقت جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے۔
اگر چڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔
شیریں کلام اور نرم زبان انسان کے غصے کی آگ پر پانی کا سا اثر رکھتی ہیں
عقل مند اس وقت تک نہیں بولتا جب تک خاموشی نہیں ہوجاتی۔
رزق کی کمی اور زیادتی دونوں ہی برائی کی طرف لے جاتی ہیں۔
دنیاداری نام ہے اللہ سے غافل ہو جانے کا۔ ضروریات زندگی اور بال بچوں کی پرورش کرنا دنیاداری نہیں ہے۔
مصیبت کو پوشیدہ رکھنا جوانمردی ہے۔
مطالعہ غم اور اداسی کا بہترین علاج ہے۔
اچھی عادات کی مالکہ نیک اور پارسا عورت اگر فقیر کے گھر میں بھی ہو تو اسے بھی بادشاہ بنا دیتی ہے۔
دوست وہ ہے جو دوست کا ہاتھ پریشان حالی و تنگی میں پکڑتا ہے۔
بروں کے ساتھ نیکی کرنا ایسا ہی ہے جیسا نیکوں کے ساتھ برائی کرنا۔
بھوک اور مسکینی میں زندگی گزارنا کسی کمینے کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بہتر ہے۔
جو کوئی اپنی کمائی سے روٹی کھاتا ہے اسے حاتم طائی کا احسان اٹھانا نہیں پڑتا۔
جب تک تمہاری حالت ہم جیسی نہ ہوجائے ہماری حالت تمہارے سامنے افسانے جیسی ہوگی۔
خدا کے دوستوں کی اندھیری رات بھی روزِ روشن کی طرح چمکتی ہے۔
حکایات سعدی
ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا ۔اس کی دعا رب تعالٰی سے یہی تھی کہ تو نےمجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔ اللہ تعالٰی عزوجل نے اس کی دعا قبول فرمائی،اسے خواب آیا کہ تو ردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ۔صبح اٹھ کر وہ رودی کی دکان پر گیا۔ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ)تلاش کرنے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا۔۔جو اسے خواب میں نظر آیا تھاا۔۔اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔۔تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کو کمان میں رکھ۔۔جہاں پر تیر گرے وہاں خزانہ دفن ہوگا۔۔فقیر نے تیر کمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیئے۔۔جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلچے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کردیتا۔۔بیلچہ،پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہوگئے مگر خزانے کا نام و نشان بھی نہ ملا۔۔وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جس جگہ تیر گرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملاتا۔۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔۔بادشاہ نے اسے طلب کیا۔۔اس نے ساری کہانی بادشاہ کو سنائی اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے۔تلاش میں ہوں،خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔ بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔۔خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔ بادشاہ سلامت بھی ناامید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔۔ فقیر نے پھر اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشک بار کرکے دعا کی اے اللہ تعالٰی میری سمجھ سے یہ عقدہ بالاتر ہے۔میں راز کو نہ پاسکا۔تو خود ہی کمال مہربانی سےاسے حل کردے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے۔جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔۔میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔۔تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔۔۔ خزانہ تیرے پاس تھا۔۔تیرے قریب تھا۔۔تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔۔خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔۔اپنے من میں ڈوب خزانہ تک پہنچ جائے گا.
حکایت سعدی سے اقتباس۔۔
خوش اخلاقی
ایک خوش اخلاق اور شیریں زبانشخص شہد فروخت کیا کرتا تھا۔ اور اس دوہری شیرینی کے باعث لوگ اس کےگرد اس طرح جمع ہوتے جیسے شہد پر مکھیاں، اور یوں اس کا سارا شہد دیکھتے ہی دیکھتے بِک جاتا تھا
اس سے حسد رکھنےوالے اس کی خوشحالی اور مقبولیت کے سبب انگاروں پر لوٹتے تھے اور ہمہ وقت اس کی مقبولیت کو کم کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے۔ بالآخر وہ اپنی اس ناپاک کوشش میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے ایسی سازش کی کہ شہد فروش کی خوش اخلاقی، بے رُخی میں بدل گئی۔ اب جو گاہک بھی اس سے بات کرتا وہ اس کے ساتھ لڑتا اور بَک بَک، جھک جھک کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے سارے گاہک ٹوٹ گئے،اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب وہ بازار میں آتا تو اس کے پاس صرف مکھیوں کا مجمع ہوتا، گاہک کوئی بھی پاس نہ پھٹکتا
مال فروخت نہ ہونے کے سبب نوبت فاقوں تک آپہنچی تو ایک دن وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا معلوم نہیں خدا ہم سے کیوں ناراض ہوگیا ہے۔ ساراسارا دن بازار میں بیٹھا رہتا ہوں لیکن ایک تولہ شہد بھی فروخت نہیں ہوتا۔ بیوی نے جواب دیا خداتو پہلے کی طرح مہربان ہے، فرق تمھارے اخلاق اور رویے میں آگیا ہے۔ پہلے تم اپنی شیریں گفتاری اور حسنِ اخلاق سے لوگوں کے دل موہ لیتے تھے۔ ہر شخص تم سے بات کر کے خوش ہوتا تھا، اور دوسرے شہد فروشوں کو چھوڑ کر تم سے شہد خریدتا تھا۔ اب تمھاری تلخ کلامی نے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کردی ہے اور انہیں تمھارا شہد بھی زہر معلوم ہوتا ہے
بھولپن
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے بچپن کاایک واقعہ یاد ہے۔
خدا رحمت کرے والدہ محترمہ نے مجھے تختی، کاپی اور سونے کی انگوٹھی خرید کر دی۔ میں چونکہ انگوٹھی کی قدروقیمت نہیں جانتا تھا اس لئے ایک ٹھگ نے کھجور کے بدلے مجھ سے وہ انگوٹھی ہتھیا لی۔
بچے چونکہ انگوٹھی کی قدروقیمت سے واقف نہیں ہوتے اس لیے شیرینی دے کر ان سے انگوٹھی چھینی جاسکتی ہے
غرور وتکبر
دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ جیسے چیتے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ تھے اور ایک دوسرے کی نظروں سےبچنے کے لئے انہیں آسمان تلے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اس کی زندگی کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس کو موت پر دوسرے کو بہت خوشی ہوئی۔
کافی عرصے بعد دوسرا شخص پہلے کی قبر کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پالش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا، دیکھا تو تاج پہننے والا سر ایک گڑھے میں پڑا ہواتھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی وہ قبرکی جیل میں قید ہوچکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھا رہے تھے، اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کےچاند کی طرح دبلا ہوچکا تھااور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہوگیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہوچکے تھے۔
یہ حالتِ زار دیکھ کر اسکا دل بھر آیا اور وہ رونے لگا، یہاں تک کہ اس کے رونے سے قبرکی مٹی تر ہوگئی ،وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہوگیا اور تلافی کے لئے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا
اس کی یہ بات سن کر ایک خداشناس آدمی کو رونا آگیا اور وہ کہنے لگا
’’اےقادرِ مطلق خدا! اگر تونے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالتِ زار پر دشمن بھی روپڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا‘‘
ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہوجائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا
دو دن کی زندگی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ موت کب آجائے، اس لئے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیئے
کہتے ہیں، ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ بادشاہ کے حکم پہ پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لےچلے تو اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ کسی شخص کے لئے بڑی سے بڑی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اسے قتل کردیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ ناراض ہو کر اسے آزاد کر دے گا۔
بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہہ رہا ہے تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا "یہ کیا کہہ رہا ہے؟" بادشاہ کا وزیر بہت نیک دل تھا اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصے سے دیوانہ ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔ اس نے جواب دیا "جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔"
وزیر کی بات سن کے بادشاہ مسکرا دیا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔
بادشاہ کا ایک وزیر پہلے وزیر کو مخالف اور تنگ دل تھا وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا "یہ بات ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پہ لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا۔"
وزیر کی بات سن کے نیک دل بادشاہ نے کہا
"اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغص اور کینے پہ ہے ، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔ یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو"
وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زبان پہ آئے
اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائے
حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے فیصلے پہ عمل کرتے ہیں۔ وزیروں کو فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات نہ نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔اور اس نے مزید کہا: "یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر سب کا انجام موت ہے۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پہ قبض کی جاتی یا فرشِ خاک پر"
وضاحت:
حضرت سعدی کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے کہ مصلحت کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلقِ خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیئےاور جب یہ اعلیٰ و ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسے جراح کو یہ اجازت ہوتی کہ (علاج کے لئیے) فاسد مواد خارج کرنے کے لئیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کہ جسم کو نشتر سے کاٹنا بذاتِ خود اچھی بات ہرگز نہیں لیکن جب جراح یہ عمل کرتا تو اسے اسکی قابلیت سمجھا جاتا۔
بایزیدبسطامی
بایزیدبسطامی (804تا874ءہجری )جوکہ ابویزیدبسطامی اورتیفرابویزیدبسطامی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں،فارس(ایران )کے صوبے بسطام میں پیداہوئے۔بسطامی آپ کے نام کے ساتھ اسی نسبت سے لگایاجاتاہے۔آپ کے آباؤ اجدادمجوسی تھے جوکہ بعد میں اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔
آپ کے داداکے تین بیٹے تھے،آدم،تیفر(بایزیدکے والد)اورعلی۔
صائب تبریزی
صائب تبریزی کی ایک غزل کے کچھ خوبصورت اشعار
موجِ شراب و موجۂ آبِ بقا یکیست
ھر چند پردہ ھاست مُخالف، نوا یکیست
موجِ شراب اور موجِ آب حیات اصل میں ایک ہی ہیں۔ ہر چند کہ (ساز کے) پردے مخلتف ہو سکتے ہیں لیکن(ان سے نکلنے والی) نوا ایک ہی ہے۔
خواھی بہ کعبہ رو کن و خواھی بہ سومنات
از اختلافِ راہ چہ غم، رھنما یکیست
چاہے کعبہ کی طرف جائیں یا سومنات کی طرف، اختلافِ راہ کا غم (نفرت؟) کیوں ہو کہ راہنما تو ایک ہی ہے۔
یادگار صائب تبریزی
ایں ما و من نتیجۂ بیگانگی بُوَد صد دِل بہ یکدگر چو شَوَد آشنا، یکیست
یہ میرا و تیرا (من و تُو کا فرق) بیگانگی کا نتیجہ ہے۔ سو دل بھی جب ایک دوسرے کے آشنا ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ہی ہوتے ہیں (ایک ہی بن جاتے ہیں)۔
در چشمِ پاک بیں نَبُوَد رسمِ امتیاز
در آفتاب، سایۂ شاہ و گدا یکیست
نیک بیں (منصف؟) نگاہوں میں کوئی رسمِ امتیاز نہیں ہوتی (ایک کو دوسرے سے فرق نہیں کرتیں) کہ دھوپ میں بادشاہ اور فقیر کا سایہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
بے ساقی و شراب، غم از دل نمی رَوَد
ایں درد را طبیب یکے و دوا یکیست
ساقی اور شراب کے بغیر غم دل سے نہیں جاتا کہ اس درد (دردِ دل) کا طبیب بھی ایک ہی ہے اور دوا بھی ایک۔
صائب شکایت از سِتَمِ یار چوں کُنَد؟
ھر جا کہ عشق ھست، جفا و وفا یکیست
صائب یار کے ستم کی شکایت کیوں کریں کہ جہاں جہاں بھی عشق ہوتا ہے وہاں جفا اور وفا ایک ہی (چیز) ہوتے ہیں۔
اوحدالدین محمد بن محمد " انوری "
اوحدالدین محمد بن محمد یا اوحدالدین علی بن اسحاق انوری چھٹی صدی ہجری کے دوسرے حصے میں پیدا ہوۓ ۔ ان کا تخلص " انوری " ہے ۔ پہلے پہل دولت شاہ سمرقندی نے ان کا تخلص " خاوری " لکھا جو کہ دشت خاوران کی نسبت سے ہے اور وہ انوری کا شہر ہے لیکن بعد میں " انوری " نے اپنے استاد کے حکم سے اس تخلص کو چھوڑ دیا اور تخلص کے طور پر " انوری " کو ترجیح دی ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کو " انوری " کا تخلص لوگوں نے دیا اور یہ انہوں نے خود اپنے لیے انتخاب نہیں کیا تھا ۔
انوری ایران کا مشہور اور عظیم شاعر تھا جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی شہرت حاصل کر لی تھی اور ان کی شہرت دربار وقت سے لے کر غریب کی جھونپڑی تک تھی ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعرانہ استادی مسلم ہو چکی تھی اور ان کے بعد آنے والے دوسرے شعراء نے ان کی استادی اور عظمت کو تسلیم کیا ہے ۔
عوفی ان کے اشعار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
" اس کے تمام قصائد طبع ہو چکے ہیں ان میں سے کسی پر بھی کوئی انگشت نمائی نہیں کر سکتا ۔ "
انوری طبع بلند اور فکر رسا شاعر تھے اور دقیق اور مشکل مضمون کو رواں الفاظ اور مروج لہجہ میں نہایت خوبصورتی سے ادا کر دیا کرتے تھے ۔ وہ اپنی شاعری میں بامحاورہ زبان کا استعمال کیا کرتے تھے اور زبان و ادب میں رائج جملہ خوبیوں کو اپنے شعر میں سمو دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے اپنی شاعری میں عربی الفاظ اور ترکیبات کا بڑی کثرت سے استعمال کیا مگر اس کے باوجود ان کی شاعری میں نہایت سادگی نظر آتی تھی ۔
بعض اوقات تو انوری کا کلام اس قدر سادہ ہو جاتا ہے کہ عام محاورات کو اپنے شعروں میں استعمال کرتا نظر آتا ہے ۔
انوری قصیدہ، غزل اور قطعہ کے بیان میں ایران کے چوٹی کے شعراء میں شمار ہوتے ہیں اور فارسی شعرو ادب کے مستحکم ارکان میں سے ایک ہیں اور ان کا رتبہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ ان کو فارسی شاعری کے تین پیغمبروں میں شمار کرتے ہیں ۔ شاعری کے علاوہ انوری کو ریاضی ،فلسفہ ،موسیقی ، اور علم ہییت میں بھی دسترس حاصل تھی ۔ انوری کا شمار ایران کے درجہ اوّل کے قصیدہ نگاروں میں ہوتا ہے اس لیۓ اہل ایران ان کا نام فردوسی اور سعدی کے ساتھ لیتے ہیں ۔
ابن اَبّار
ابوعبداللہ محمد بن عبدالله قُضاعی، ابن اَبّار سے مشہور، (595-658) ہجری قمری کے اندلسی ادیب، كاتب، تاریخداں اور محدث تھے جو سیاسی سرگرمیوں میں بھی زیادہ مصروفیت رکھتے تھے- ابن ابار ایک اعلی سائنسی پوزیشن رکھتے تھے- شعر و شاعری میں ایک نازک مزاج کے مالک تھے-
ان کی تصانیف یہ ہیں: اِعتاب الكتّاب؛ تحفہ القادم؛ دُرَرُ السِمط؛ التكملہ لكتاب الصلہ؛ الحلہ السِيَراء؛ الغصونُ اليانعہ؛ مظاہرَہ المَس