top of page
فن معماری

اسلامى تہذيب و تمدن ميں فن و ہنر

 

 

1_ فن معمارى ، مصورى ، خطاطى اور ظروف سازى كى صنعتيں

واضح سى بات ہے كہ دنيائے عالم كى اقوام اور ملتيں فنون سے آشنائي اور اس سے بہرہ مند ہونے كے حوالے تقدم اور تاخر كا رتبہ ركھتى ہيں ايرانى اور رومى لوگ ظہور اسلام سے صديوں قبل فنون سے آشنا ہوچكے تھے اسى ليے ظہور اسلام كے دور ميں يہ دونوں قوميںان فنون ميں چند صديوں پر محيط تاريخى ميراث كى حامل تھيں_

جزيرہ عرب ميں اسلام سے قبل مختلف فنون كے حوالے سے كوئي خاص كام نہ ہوا تھا سوائے عربى خط كے يہ خط بذات خود بہت سى فنى خوبصورتيوں كو اپنے دامن ميں سميٹنے كيلئے تيار تھا اور تيسرى صدى سے نويں صدى تك يہ ان سب محاسن كامرقع بن گياتھا_(1)

عربوں ميں بہت زيادہ اہميت كا حامل فن ،شعر اور قصيدہ گوئي كا فن تھا كہ اسلامى فتوحات نے ايكدم ان خيمہ نشين لوگوں پر ايرانيوں كے با شكوہ محلات اور يونانيوں اور روميوں كے معابد اور كليساؤں كے دروازے كھول ديے، اسى ليے آج ايرانى ، يونانى ، مصرى اور شامى فنون كا امتزاج اسلامى حكومت كے پرچم تلے مختلف طريقوں اور روشوں كى صورت ميں جلوہ افروز ہے جسے اسلامى آرٹ كہتے ہيں_(2)

پہلى صدى ہجرى كے اختتام سے اسلامى حكمرانوں نے مفتوحہ سرزمينوں ميں عظيم الشان مساجد اور محلات

 

1)ہارسٹ ولادى مير جانسن، تاريخ ہنر ، ترجمہ پرويز مرزبان ، تہران ، علمى فرہنگى ، 1359، ص 2_191_

 

2) كريسٹين پرايس ،تاريخ ہنر اسلامى ، ترجمہ مسعود رجب نيا ، تہران ، علمى و فرہنگى ، 1364، ص 9_

 

كى تعمير كا كام شروع كيا اور كوشش كى كہ قبل از اسلام كى عمارتوں سے بڑھ كر عظيم الشان اور باشكوہ آثار تخليق ہوں_ ليكن دوسرى صدى ہجرى كے آغاز سے اسلامى آرٹ ميں آہستہ آہستہ معين روايت وجود ميں آئي اور ارتقائي مراحل طے كرنے لگى ماہرين نے ايسى عمارتيں جو مرمت كى محتاج تھيں ان سے قومى اورملى خصوصيات اخذ كيں اور سب كو اسلامى فنون لطيفہ سے ہم آہنگ كيا_

اسلامى معمارى تين صورتوں يعنى مساجد ، مدارس اور مقبرے يا متبرك مقامات ميں ظاہرہوئي _ دمشق كى جامع مسجد جو كے وليد كے زمانے ميں ( 87 سے 96 ہجري)جيوپيٹر ( روم كے خداوں كا خدا) كے معبدكى جگہ تعمير كى گئي اسلام كے قديم ترين آثار ميں شما رہوتى ہے_(1)

اسلامى دور كے اوائل كى ايك اور عمارت حشام بن عبدالملك ( حكومت125 _ 105 قمرى ) كا محل ہے كہ جو (مشتى ) ( يعنى موسم سرما كى سرائے) كہلاتا تھا _ يہ اريحا كے نزديك ميدانى علاقوں ميں تعمير ہوا اس باشكوہ محل ميں ساسانى دور كے آرٹ مثلاً پروں والے شير اور ديگر افسانوى جانوروں كا دھاتى چيزوں اوركپڑوں پر نقش ہونا ايرانى آرٹ كى واضح علامات تھيں_ عالم اسلام ميں اسلامى فنون كى زيبائيوں كا ايك اورمرقع ہسپانيہ ميں قرطبہ كى جامع مسجد ہے بلند ميناروں اور متعدد ستونوں والى يہ خوبصورت مسجد اگرچہ آج كليسا ميں تبديل ہوگئي ہے ليكن اب بھى عيسائي پاكيزگى پر اسلامى تقدس حاوى نظر آتا ہے_

قرطبہ كے نزديك عبدالرحمان سوم كيلئے تيرہ سالوں ميں ايك محل تيار ہوا كہ جو مدينة الزہرا كہلايا اگرچہ آج وہ و يرانى كا شكار ہے ليكن اسكے كچھ حصوں كى دوبارہ تعمير اور مرمت كا كام ہو رہا ہے قاہرہ بھى اسلامى فنون كى تجلى كا ايك اورمركز تھا _ البتہ دريا ئے نيل كے كنارے پر مصر كا پرانا دار الحكومت فسطاط اسى طرح مصر كى صنعتى تجارت كا مركز تھا_ مصر كے اسلامى فنون كى گفتگو فسطاط كے '' سوق القناديل'' (چراغوں كے بازار ) كے تذكرہ كے بغير نا مكمل ہے_

 

1)ہارسٹ ولادى ميرجانسن_سابقہ حوالہ_

 

اس دور كے عالم اسلام ميں سوق القناديل فنى اور صنعتى اشياء كى خريد و فروش كے مراكز ميں سے ايك تھا_ فسطاط اور قاہرہ ميں سبز شفاف شيشے كے ظروف درخشان زمرد _ چمكدارسفيد شيشہ اور دمشق كے تانبے كے لمبے گلدانوں نے اسماعيلى داعى كى آنكھوں كو خيرہ كيا ہوا تھا_ اسى طرح ہاتھ سے بنے ہوئے كپڑوں _ لہريے داراطلسى كپڑے _ ريشمى اور سوتى كپڑے اور ان پر موتيوں كے خوبصورت كام نے ناصر خسرو كى حيرت كو دو چند كرديا تھا_(1)

بالاخرہ سلجوقى تركوں نے حملہ كيا كہ جو 464 قمرى ميں فلسطين تك پہنچ گئے تھے انہوں مصريوں كو فلسطين سے نكالا اور بيت المقدس پر قابض ہوگئے يہ خبر باعث بنى كہ صليبى اقوام دوبارہ بيت المقدس پر تسلط پانے كيلئے اسلامى سرزمينوں پر حملے كرنے لگے اور ان جنگوں كے نتيجے ميں اہل مشرق كى تہذيب اور فنون كے بہت سى عجائب سے يہ لوگ آشنا ہوئے(2)

بيت المقدس كے جسميں 69 قمرى ميں عبدالملك بن مروان نے مسجد اقصى كے شمالى حصہ ميں ايك باشكوہ گنبد تيار كروايا تھا ( جسے قبہ الصخرة كا نام ديا گيا) كہ جو حضرت عيسى كے مزار والے كليسا كے گنبد كے برابر تھا اس گنبد نے حملہ آور صليبيوں كو حيرت زدہ كرديا تھا_ صليبيوں كا وہ گروہ جو جنگ كے بعد اپنى سرزمينوںكى طرف لوٹايہ اسلامى فنون كا ايك خزانہ بھى ساتھ لے گيا _ اور ہنر و فنون كے آثاريورپى اہل فن اور صنعت كاروں كيلئے الہام بخش ثابت ہوئے(3)

صلاح الدين ايوبى نے چھٹى صدى ہجرى كے آخر ميں صليبيوں كے ساتھ جنگ شروع كى اور بيت المقدس كو آزاد كروايا اسكے زمانہ ميں مسجد اقصى كى آرائشے و زيبائشے ميں اضافہ ہوا حلب ميںكاريگرى كا ايك

 

1) ناصر خسرو قبادياني، سفرنامہ ، محمد دبيرستانى كى سعى سے، تہران 1373 ص 8_76_

 

2) كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ ، ص 5،44_

 

3) سابقہ حوالہ ص 50 ، 48 146 

 

نمونہ بيرى كى لكڑى سے بنا ہوا منبر لايا گيا اور مسجد ميں ايك اور محراب بنايا گيا اور گنبد كا زريں غلاف از سر نو بنايا گيا_

ان تمام چيزوں كے ساتھ جب بھى اسلامى ہنر و فن كى بات ہوتى ہے ، ايران اور ايرانى لوگوں كا ان فنون كى ترقى ميں خصوصى كردار سامنے آتا ہے چوتھى صدى ہجرى سے ليكر دسويں صدى ہجرى تك كہ جب صفوى صوفيوں نے اپنے قيام كا آغاز كيا ان اداوار ميں ايران عالم اسلام ميں فن اور فن كى تخليق كا گہوارہ تھا، حقيقى بات تو يہ ہے كہ ايران ، بين النہرين ، بر صغير اور قفقاز ميں سلجوقى حكومت كى تشكيل ايرانيوں كے دوبارہ فن و ہنر كى طرف لوٹنے ميں اہم موڑ ثابت ہوئي_(1)

معمارى ميں سب سى پہلى عمارت جو ايرانى معماروں كے ہاتھوں چوتھى صدى كے آغاز ميں تيار ہوئي وہ بخارا ميں شاہ اسماعيل سامانى كى آرامگاہ كى عمارت تھى ، كہ جو ديگر باشكوہ مقابر كے تيار ہونے كيلئے نمونہ قرار پائي، مساجد اور مدارس كے اطراف ميں مقبروں كى عمارتيں اسلامى معمارى كى تيسرى قسم شمار ہوتى ہيں انكا 390 قمرى سے ليكر نويں صدى ہجرى كے آخر تك رواج تھا، ايسى عمارتيں شروع ميں اكثر سادہ ہوتى تھيں مثلا گنبد قابوس ميں قابوس وشمگير كى آرامگاہ ( 397 ہجرى قمرى )، بعد ميں اس كے بيرونى حصوں كى آرائشے كى گئي آہستہ آہستہ ايسى ارامگاہ ہيں بننے لگيں كہ جو كاشى كارى سے مزين ہوتى تھيں ايسى آرامگاہوں كا زيادہ تر تعلق تيمورى ادوار سے ہے جيسا كہ ہرات كے نزديك خواجہ عبداللہ انصارى كا مزار جو 832 قمرى ميں تعمير ہوا_

مساجد كى تعمير كے حوالے سے ايرانى مسلمانوں نے ابتداء ميں عرب سرزمين كے رواج كے مطابق ستون والى مساجد كى روش كو اپنايا _ ليكن كچھ عرصہ گزرنے كے بعد پتھروں كى جگہ پر اينٹوں كے ستون بنانے لگے كہ جن ميں انواع و اقسام كے قوس دار طاقچوں كو ايجاد كيا _ كہ جو اينٹ سے ہى تيار ہوتے تھے مساجد كى تعمير

 

1)سابقہ حوالہ ص 70_ 56_147 

كے حوالے سے ايرانيوں كى خاص روش ميں ايوان اور بالكونى كا رواج ايرانى گھروں سے آيا ، يہ رواج گھروں سے مساجد اور مساجد سے پانچويں صدى كے دوسرے نصف ميں طلباء كے ليئے تيار ہونے والے حكومتى مدارس ميں پہنچا_ ايران كے سلجوقيوں نے اصفہان كو اپنا دار الحكومت قرار ديا جو مدتوں قبل صنعت و ہنر كا مركز تھا_ اب بھى اصفہان ميں سلجوقيوں كى جامع مسجد موجود ہے _ اگرچہ اس زمانہ كے بادشاہوں كے محل اور اسكے سامنے ايك بڑے ميدان كے حوالے سے كچھ نہيں بچا_

اصفہان كى جامع مسجد يا وہ مسجد كہ جو زوار ہ ميں 530 قمرى تعمير ہوئي ابھى بھى اپنى جگہ موجود ہے يہ يقيناً تاريخ كى وہ پہلى مسجد ہے كہ جسميں چار ايوانوں والى معمارى استعمال ہوئي ہے_

سلجوقى دور ميں عمارتوں كى تزيين ميں اينٹ كا استعمال بنيادى اہميت كا حامل ہوتا تھا اسى دور ميں آہستہ آہستہ حاشيے اور اندرونى حصوں كى چينى كى ٹائلوں سے تزيين ہونے لگي(1)سلجوقى دور كے بعد سے چار ايوان اور گنبد والے نماز خانہ كا نقشہ تمام مساجد كى تعمير ميں استعمال ہونے لگا_

گچ يا جپسم سے تزيين پانچويں صدى كے اواخر ميں را ئج ہوئي جو كبھى وہى انيٹوں والے ڈيزائن كا ہى تكرارہوتا تھااور كبھى نباتا تى اور اسليمى (2)نقوش بنائے جاتے كہ جنكى بلڈنگ كى اصلى شكل سے ہم آہنگى نہيں ہوتى تھى معرق كاشى كارى 494 ق كے نزديك كے سالوں ظاہر ہويى ابتداء ميں يہ صرف فيروزى اور نيلے رنگ كى حد تك محدود تھى ليكن بعد ميں اسميں سرمئي ، سفيد ، سياہ ، سرخ اور زرد رنگ كا اضافہ ہوا_

سلجوقى دور كا ہنر صرف مساجد كى تعمير اور ان ميں كاشى كارى كى حد تك محدود نہ تھا _ مٹى كے خوبصورت ظروف كا بننا بھى اس دور كا ايك اورہنر شمار ہوتا تھا_ ان ميں شاہكار ترين نمونے سلجوقى دور ميں چھٹى صدى ہجرى تك رى اور كاشان ميں تيار ہوتے تھے(3)

 

1)حسين زدرشيدى ، نقش آجر و كاشى در نماى مدارس ، تہران ، محمود ماہر النقش ، طرح و احداء نقش در كاشيكارى ايران دورہ اسلامى ، تہران_

 

2) اسليمى : يہ ايرانى سبك كا ايك جز تھا كہ جسميں مختلف ٹيڑھے خطوط بنائے جاتے ہيں كہ جو كاشى كارى ،گچ يا جپسم سے كام ، قالين كے ڈيزائن بنانے ميں مختلف رنگوں سے استعمال ہوتا ہے يہ چھوٹى سى ٹہنى اور پھولوں كى مانند ہوتا ہے_

 

3)كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ، ص 63 _148 

 

ان ميں سونے كے پانى اور ديگر رنگوںسے مزين كاسے كوزے اور گلدان يا سياہ ، فيروزى اور ہلكے نيلے رنگ كى تہہ چڑھے ظروف اس دوركے نمونوں ميں سے شمار ہوتے تھے_ ان ميں بعض كو تو سات رنگوں سے سجاياجاتا تھا_

منگولوں كے حملے كہ دوران ايران كے دستى فنون آہستہ آہستہ زوال كے شكار ہوگئے_ ليكن اسكے باوجود تيمورى دور كے دھاتى شاہكار اور صفوى دور كے فولادى آثار جوہم تك پہنچے ہيں بالخصوص جالى دار ظروف اپنى جگہ بے نظير ہيں اسى دور ميں ايران ميںايك اور نفيس اور خوبصورت فن شروع ہواجوكہ خطى نسخہ جات كو سونے ، چاندى اور جواہر سے ڈيزائن كرنا تھا وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ يہ فن مقبول ہونے لگا_ صدر اسلام ميں قرآن نويسى كے نتيجے ميں ہى فن خطاطى تخليق ہوا ہوگا بہت سے عظيم خطاط ايرانى تھے_ خطاطى كى مختلف اقسام ميں دوخاص روشوں يعنى نستعليق اور شكستہ كے موجد بھى ايرانى تھے_

چھٹى صدى ہجرى ميں كہ جب سلطان علاء الدين كيقباد نے ايشيا ئے كوچك ميں اپنى حكومت قائم كى اور چونكہ وہ خود بھى خطاط ، مصور اور بڑھئي تھا اس ليے اس نے اپنے دارالحكومت قونيہ كو فنكاروں اور دانشوروں كا مركز بناديا_ حقيقت ميں كہہ سكتے ہيں كہ پانچويں ہجرى ميں اگر چہ ايشيائے صغير كى ترك حكومت خراسان اور عراق كے سلجوقيوں سے جدا ہوگئي تھى ليكن انكا فن اور معمارى اسى طرح ايرانى فن اور معمارى سے وابستہ تھا منگولوں كے ايران پر حملہ كے دوران بغير اسكے كہ انہوں نے چاہا ہو يا جانا ہو ايرانى ہنرمند افراد كوايشيائے صغير كى طرف فرار ہونے پر مجبور كرديااسى ليے يہ حملہ اس فن كى روايت كا اس سرزمين كى طرف منتقل ہونے كا باعث بنا _

عالم اسلام كى وسعت اور اسميں متعدد اور مختلف حكومتوں كے ہونے سے يہ فائدہ ہوا كہ جب بھى كسى حادثہ كے نتيجہ ميں عالم اسلام كے كسى ايك حصہ ميں ہنر اور فن كو زوال حاصل ہوا تو دوسرى كسى جگہ پر انہى فنون

 

1) مورست ولد مار جنسن ، سابقہ حوالہ ص 3_202_149 

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى (Geomatrical)اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوںپر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى (1)

ساتويںايل خان غازان خان (703_ 694 قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاںدينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب 499 قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (720 ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

 

1) سابقہ حوالہ ص 69_150 

 

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے 634 قمرى اور 1236 عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_151 

 

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميںتبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( 1)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام 833 ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

 

1) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص 129_152 

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _ (1)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن 1609 عيسوى سے 1616 عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے 968 قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميںكام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

 

1) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص 312_ 153 

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ 966 قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم۔154 

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں: مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _ (1)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (1012 قمرى ، 1603 عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _ (2)

 

1) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص 200

 

2)سابقہ حوالہ، ص 202_155 

 

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _ (1)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے 1014 قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ 1038 ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

 

1) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص 13_ 41_156 

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى (1) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے 1727 عيسوى يا 1140 قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيںہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _ (2)

 

1) Levni

 

2) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج 1، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_157 

 

2_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (188 _ 125 قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _ (1)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً 150 قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور 235 ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

 

1) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج 5 ، ص 208، ص 230_ 158 

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_ (1)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (339 _ 259 يا 260 قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(2)

ابوعلى سينا (428 _ 370 قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_ (3)

 

1) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century Londonp . .

2) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص 144، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S . v . Musiki Byo. Wright

 

3)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص 368_ 159 

 

صفى الدين عبدالمومن ارموى (619 _ 613 قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (838 قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں_(1)

 

1)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش 1، 1942_

 

 

 

 

 

خطاطی۔

نِ خطاطی کو اسلام سے زیادہ کسی تہذیب نے آرائشی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ خطاطین ، ماہرین تعمیر اورسنگ تراشوںنے مساجد ، مقابر اورمحلات کی کئی پوری پوری دیواریں پودوں کی تصویریں، علم ہندسہ کی شکلوںاوراسلامی خطاطی کے فن پاروں سے مصوّرومنوّر کردی تھیں۔یہ کتاب صرف خطاطین کے تذکرے پر مشتمل نہیں بلکہ اس میں اسلامی خطاطی کا تعارف ایسے منفرد انداز میں پیش کیاگیاہے جس سے اس فن کے قارئین کو بالعموم اور فنکاروں کو بالخصوص سادہ وسلیس زبان میں اس فن کافہم منتقل کرنا ور مصورانہ خطاطی کے لیے ایک تاریخی تناظر فراہم کرناہے۔فن خطاطی سے شغف رکھنے والے حضرات خصوصاً فائن آرٹس کے طلبہ وطالبات کے لیے یہ کتاب علم کا ایک انمول خزانہ ہے۔

ايرانيوں کے فنون ميں سے ايک جس کي ترقي کے ليۓ انہوں نے بہت محنت کي ، خوش خطي کا  آرٹ  تھا - خطاطي کو مصوري کي ہي ايک شاخ کہہ سکتے ہيں - فارسي رسم الخط کي عمر تقريبا ايک ہزار سال پراني ہے - فارسي رسم الخظ اس مدت ميں اپنے ارتقاء کو پہنچا -

ايراني قوم قبول اسلام کے بعد عربي رسم الخط کوفي سے آشنا ہوئي -

ابن مقلد سب سے پہلا خطاط تھا  جس نے اس فن ميں شہرت پائي - وہ ان افراد ميں سے تھا جس نے خط کوفي سے ايک نيا  رسم الخط تخليق کيا - اس خط سے جلد ہي رواج اور شہرت پائي اور خط کوفي کو منسوخ کر ديا -  اسي وجہ سے اس کو خط " نسخ " کہتے ہيں -

ابن مقلد کے بعد ياقوت نامي خطاط نے ايک اور رسم الخط اختراع کيا -

کچھ عرصے بعد خط نستعليق وجود ميں آيا - مير عماد نامي ايراني خطاط نے خط نستعليق کو بلنديوں تک پہنچايا - صفوي دور حکومت ميں تيسرے خاص ايراني رسم الخط کي اختراع ہوئي - اس خط کا نام شکستہ نستعليق تھا - درويش عبدالمجيد  طالقاني ايران کے مشہور ترين شکستہ نويس ہيں -

گذشتہ چند سالوں سے " انجمن خوشنويسان ايران " ايک حکومتي  انسٹي ٹيوٹ خطاطي اور خوشنويسي کي ترقي کے ليۓ کام کر رہا ہے -

 

 

 

 

 

 

 

منی ایچر

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _ 

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے 1014 قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ 1038 ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

 

1) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص 13_ 41_ 156 

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى (1) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے 1727 عيسوى يا 1140 قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيںہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _

 

 

 

 

 

مینا کاری

سلجوقى دور كا ہنر صرف مساجد كى تعمير اور ان ميں كاشى كارى كى حد تك محدود نہ تھا _ مٹى كے خوبصورت ظروف كا بننا بھى اس دور كا ايك اورہنر شمار ہوتا تھا_ ان ميں شاہكار ترين نمونے سلجوقى دور ميں چھٹى صدى ہجرى تك رى اور كاشان ميں تيار ہوتے تھے(3)

 

2) اسليمى : يہ ايرانى سبك كا ايك جز تھا كہ جسميں مختلف ٹيڑھے خطوط بنائے جاتے ہيں كہ جو كاشى كارى ،گچ يا جپسم سے كام ، قالين كے ڈيزائن بنانے ميں مختلف رنگوں سے استعمال ہوتا ہے يہ چھوٹى سى ٹہنى اور پھولوں كى مانند ہوتا ہے_

ان ميں سونے كے پانى اور ديگر رنگوںسے مزين كاسے كوزے اور گلدان يا سياہ ، فيروزى اور ہلكے نيلے رنگ كى تہہ چڑھے ظروف اس دوركے نمونوں ميں سے شمار ہوتے تھے_ ان ميں بعض كو تو سات رنگوں سے سجاياجاتا تھا_

منگولوں كے حملے كہ دوران ايران كے دستى فنون آہستہ آہستہ زوال كے شكار ہوگئے_ ليكن اسكے باوجود تيمورى دور كے دھاتى شاہكار اور صفوى دور كے فولادى آثار جوہم تك پہنچے ہيں بالخصوص جالى دار ظروف اپنى جگہ بے نظير ہيں اسى دور ميں ايران ميںايك اور نفيس اور خوبصورت فن شروع ہواجوكہ خطى نسخہ جات كو سونے ، چاندى اور جواہر سے ڈيزائن كرنا تھا وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ يہ فن مقبول ہونے لگا_ صدر اسلام ميں قرآن نويسى كے نتيجے ميں ہى فن خطاطى تخليق ہوا ہوگا بہت سے عظيم خطاط ايرانى تھے_ خطاطى كى مختلف اقسام ميں دوخاص روشوں يعنى نستعليق اور شكستہ كے موجد بھى ايرانى تھے_

 

 

 

 

 

ایرانی تذهیب

یہ ہنر ایرانی اسلامی دور کے کتابت سے وابستہ ہے۔ اگرچہ تذہیب اسلام سے پہلے کا پیداوار ہے مگر زیادہ مذہبی کتب خاص کرکے قرآن کی سجانے کےلیے استعمال ہوتاہے۔

 

 

 

 

 

 

 

ایرانی سینما 

 

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور چند سال بعد کی ایران کی سماجی فلموں کی صورت حال

 

سینما اور فلم کے مطالعات کا ایک اہم شعبہ فن و ہنر کی سماجیات کی بحث اور خاص طور پر معاشرے اور سینما کا باہمی رابطہ ہے۔ کیونکہ سینما اور فلم افراد کے ذہن کو کچھ اس طرح کنٹرول کر سکتے ہیں کہ وہ سینما کے پردے پر کہانی بیان کرنے کے ساتھ حتی لوگوں کی زندگي کے راستے کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہالی ووڈ میں اس کے ابتدائي برسوں کے دوران ہی معاشرے اور سینما کے باہمی رابطے کا جائزہ لینے کا ایک مرکز موجود تھا کہ جو سینما کے ذریعے اثرانداز ہونے کے طریقوں کا جائزہ لیتا تھا۔ معاشرے پر ایک وسیع نظر نے دنیا کے سینما کی مدد کی کہ وہ سماجی تربیت و ترقی میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے فائدہ اٹھائے بلکہ سینما کو معاشرے کے ایک آئینے میں تبدیل کر دے۔ ایران کا سماجی سینما ابتدا سے لے کر اب تک غالبا ایسے ہدایت کاروں کے سہارے رہا ہے کہ جنہوں نے اپنے شخصی اور ذاتی مطالعات کی بنا پر فلمیں بنانا شروع کیں۔ اس بنا پر ایران کے سماجی سینما اور فلموں میں نشیب و فراز بھی آتے رہے۔ ایرانی سینما کی تاریخ میں ہمیں ایسی فلمیں بھی نظر آتی ہیں کہ جو معاشرے کے ساتھ ساتھ آگے آئي ہیں اور بعض دیگر نہ صرف معاشرے سے پیچھے رہ گئي ہیں بلکہ انہوں نے معاشرے کی مکمل طور پر غلط تصویر پیش کی ہے اور ان کے ہدایت کار اور فلم ساز غلط راستے پر چلے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کو معاشرے کی صحیح شناخت نہیں ہے اور ان کے تجربات انہیں معاشرے کے تجزیہ و تحلیل کی اجازت نہیں دیتے۔ ان فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے ذہن میں صرف معاشرے کی ظاہری شکل ہے کہ جس میں معاشرے کی حقیقی روح موجود نہیں ہے اور ان کی فلموں کو ایران کے سماجی سینما اور فلموں کا سچا نمائندہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایرانی سینما اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي برسوں میں معاشرے کے اس وقت کے حالات اور سیاسی مسائل سے متاثر تھا اور قدرتی طور پر اکثر فلمیں انقلاب کے موضوع پر بنائی گئیں۔ لیکن ایران کے خلاف صدام کی مسلط کردہ جنگ نے اس عمل کو روک دیا اور میڈیا کے دوسرے افراد کی مانند فلم سازوں کو بھی اس سوچ میں ڈال دیا کہ کہ وہ اپنے کیمروں کو اس مسلط کردہ جنگ اور ملت ایران کے مقدس دفاع کے حقائق فلم بند کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اس میدان میں جو اداکار اپنے کام میں مصروف تھے وہ جنگ کے حالات کے ساتھ ہم آہنگ تھے اور جس قسم کی فلم بھی تیار کی جاتی تھی وہ اسی نقطۂ نظر اور حالات کے مطابق تھی۔ لیکن جنگ کے زمانے کے حالات کے پیش نظر ثقافتی سرگرمیوں کے لیے زیادہ بجٹ مختص نہیں کیا جاتا تھا۔ فلم ساز اور ثقافت کے دیگر شعبوں میں مصروف افراد کم ترین بجٹ سے اپنا کام تیار کر رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اچھی اور کامیاب فلمیں اسی زمانے میں بنائي گئیں۔ حتی فلموں کی فروخت بھی موجودہ فلموں سے کہیں زیادہ تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور کے سماجی حالات منفرد تھے اور ان کا کسی بھی معیار سے جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ بہت سے محققین کا خیال ہے کہ ایران کی فلمی صنعت سنہ اسی کی دہائي میں اپنے عروج پر پہنچ گئی اور ایران کی بہت سی یادگار فلمیں اسی زمانے میں بنائي گئيں۔ ٭٭٭٭٭ انیس سو اٹھاسی میں جنگ کے خاتمے کے بعد ایرانی فلمی صنعت میں سماجی موضوعات پر فلمیں بننے لگیں اس کے ساتھ ہی ساتھ کامیڈی فلمیں بھی بڑی تعداد میں بنائي گئيں۔ ان دنوں میں سینما گھروں میں رونق بہت بڑھ گئی اور فلمی صنعت ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔ سماجی سینما میں اسٹار سامنے آنے لگے جن میں بڑی تعداد میں نوجوان اسٹارز تھے اور اسی وجہ سے دیکھنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر بہروز افخمی کی فلم عروس کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کے اداکار انقلاب کے بعد سینما کے اولین اسٹارز میں تبدیل ہو گئے۔ اس کے بعد ایران کے سماجی سینما میں ایک نیا موڑ آيا اور کمزور طبقات کے مسائل اور سماجی واقعات پر فلمیں بننے لگیں۔ رخشان بنی اعتماد، رسول ملا قلی پور، جیسے فلم سازوں اور ان کے بعد اصغر فرہادی نے ایران کے سماجی سینما کی ترقی و پیشرفت میں اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ ان فلم سازوں کی فلموں میں غربت، نشے اور عورتوں کے مسائل کا ایک سماجی امور کے ماہر کی حیثیت سے جائزہ لیا گيا۔ ان فلموں کو بھرپور تحقیق کے بعد تیار کیا گيا حتی کہ بعض فلمیں تو دستاویزی فلموں کی مانند تھی۔ ایرانی سینما کے ایک ممتاز نقاد اور مصنف جواد طوسی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ایران کے سماجی سینما نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں قابل ذکر ترقی کی لیکن بہرحال سماجی موضوعات، غلط فہمیوں اور کبھی بے اعتمادی کا شکار رہے اور بعض اوقات بہت ہی محتاط اور قدامت پسند نظریات سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے یہ سماجی نتائج سے زیادہ قریب نہیں آ سکے۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ بعض سماجی مشکلات کا منطقی جواب اقتصادی، تربیتی اور ثقافتی میدانوں میں تلاش کرنا چاہیے اور ہمارا فریضہ ان سماجی مشکلات کو پہچاننا اور ان کو دور کرنا ہے۔ لیکن ایرانی سینما نے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں اور بعض مواقع پر عوام پسند فلموں نے اسے اس کے اصلی ہدف و مقصد سے دور کر دیا اور بعض فلموں کی کہانیاں کسی بھی قسم کی علمی بنیاد کے بغیر لکھی گئیں اور ان پر فلمیں تیار کی گئيں۔ ان کا پہلا ہدف و مقصد صرف لوگوں کی توجہ حاصل اور انہیں محظوظ کرنا تھا۔ ان فلموں کی اہم ترین خصوصیت کوئی اخلاقی پیغام پیش کرنے پر لوگوں کو اینٹر ٹین کرنے کو ترجیح دینا تھا کہ جو درحقیقت سماجی سینما کے مقام کو گرا رہا ہے اور ان موضوعات پر فلمیں بنانے والے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے چکر میں ہیں اور اس کے لیے ان کے نزدیک فلم کے معیار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان فلموں میں ظاہری چمک دمک اور اداکاروں کی مقبولیت کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کا اولین مقصد لوگوں کو سینما گھروں کی طرف کھینچنا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اس قسم کی فلموں میں کہانی پر توجہ دینے سے زیادہ لوگوں کے لیے دیگر پرکشش چیزوں پر توجہ دی گئي اور حقیقی سماجی سینما کو بھلا دیا گیا۔ البتہ سماجی سینما کا چراغ کبھی بھی نہیں بجھا لیکن اسے خطرات کا سامنا رہا اور اسے آگے بڑھانے میں سستی سے کام لیا گيا۔ ایران کے سماجی سینما نے حالیہ برسوں کے دوران دشوار حالات سے گزر کر ملکی اور غیرملکی میدان میں قابل ذکر پوزیشن حاصل کر لی ہے اور عوام کی توجہ حاصل کرنے میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوئي ہے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے والے ایرانی عوام کے سماجی مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے موضوعات پر بھی توجہ دے رہے ہیں کہ جن کا انسان کو سامنا ہو سکتا ہے۔ اسی بنا پر ایران کی سماجی موضوعات پر بننے والی فلمیں دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی مقبول ہیں اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں۔ اس کا ایک واضح نمونہ فلم جدائی نادر از سیمین ہے کہ جسے گزشتہ سال عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی اور اس نے اہم ترین فلمی ایوارڈ حاصل کیے اور پوری دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھا اور پسند کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار اصغر فرہادی کا تعلق ایرانی فلم سازوں کی نوجوان نسل سے ہے کہ جو سماجی مسائل کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے جو بھی فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بنائے ان میں سماجی موضوعات کو تنقیدی نظر سے دیکھا گيا ہے اور انہیں بڑے خوبصورت انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا گيا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں کے ایک کامیاب ہدایت کار کی حیثیت سے نہ صرف ایران میں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مقبول ہیں۔

موسیقی
خطاطی
منی ایچر
مینا کاری
تذہیب
سینما
  • White Twitter Icon
  • White Facebook Icon
  • White Vimeo Icon
  • White YouTube Icon
  • White Instagram Icon

Copyright© 2019 by Shabbir Ahmad Shigri

bottom of page