top of page
farsi seekhen4.jpg
farsi seekhen3.jpg
farsi seekhen2.jpg
farsi seekhen.jpg

                                                    فارسی زبان اور اس کے اثرات

انسان نے جب سے ايک دوسرے کے قريب رہنا شروع کيا اور ايک معاشرے کي بنياد رکھي تب سے باہمي ارتباط کے ليۓ انسان کو زبان کي ضرورت محسوس ہوئي - اس ضرورت کے پيش نظر دنيا کے مختلف حصوں ميں مختلف طرح کي زبانيں وجود ميں آئيں - جب دنيا کے مختلف معاشروں اور دنيا کي مختلف زبانوں نے ايک دوسرے کے قريب آنا شروع کيا تب ان زبانوں کے اثرات ايک دوسرے پر مرتب ہونے لگے اور يوں ايک زبان کا اثر دوسري زبان کے ذخيرہ الفاظ اور ساخت ميں ديکھا جانے لگا - عرب اور ايراني خطے ميں ايک دوسرے کے قريب ہونے کي وجہ سے ايک دوسرے کي ثقافت سے بہت حد تک آگاہ ہوۓ اور ان کي زبانوں نے بھي ايک دوسرے کا اثر قبول کيا - جس طرح سے عربي زبان نے فارسي پر اپنا اثر چھوڑا ہے اسي طرح فارسي زبان بھي اردو پر اثرانداز ہوئي ہے ليکن يہاں پر اس بات کي طرف اشارہ کرنا ضروري ہے کہ عربي ايک نسلي زبان ہے جبکہ فارسي ھندو ايراني زبانوں کے خاندان ميں سے ہے - عربي اور فارسي کي گرائمر ميں بہت زيادہ فرق ہے جبکہ اردو اور فارسي کي گرائمر ايک دوسرے سے بہت زيادہ مماثلت رکھتي ہے - شايد اس کي ايک وجہ يہ بھي ہو سکتي ہے کہ فارسي اور اردو ہر دو زبانوں کا تعلق آريائي زبان سے ہے اور اس قديم ہندي کي ايک شکل ہے جو فارسي زبان کے زير اثر رہ کر موجودہ شکل ميں ہمارے سامنے ہے -اردو اور فارسي زبان کي جڑ ايک ہے اور شايد يہي ايک وجہ ہے کہ فارسي زبان کا اردو پر اثر بہت گہرا ہے جبکہ فارسي زبان پر عربي کا اس قدر زيادہ اثر نہيں ہے - بعض اوقات گرائمر کے لحاظ سے اردو اور فارسي ميں اس قدر مماثلت سامنے آتي ہے کہ ہم يہ سوچـنے لگتے ہيں کہ کيا فارسي اور اردو کا ايک جڑ سے ہونا اس کي وجہ ہے يا اردو پر فارسي کے اثرات اس امر کا باعث ہيں - فارسي زبان کي مانند اردو زبان ميں بھي فاعل کو فعل پر اہميت دي جاتي ہے

فارسی زبان

فارسی زبان

 

فارسی ایران، افغانستان اور تاجکستان میں بولی جاتی ہے.فارسی کو ایران، افغانستان اور تاجکستان

میں دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے. ایران، افغانستان، تاجکستان اور اُزبکستان میں تقریباً

72 ملین افراد کی مادری زبان ہے. یونیسکو (UNESCO) سے بھی ایک بار مطالبہ کیا جا چکا

ہے کہ وہ فارسی کو اپنی زبانوں میں شامل کرے.فارسی عالمِ اسلام اور مغربی دُنیا کے لئے اَدب

اور سائنس میں حصہ ڈالنے کا ایک ذریعہ رہی ہے. ہمسایہ زبانوں مثلاً اُردو پر اِس کے کئی اثرات

ہیں. لیکن عربی پر اِس کا رُسوخ کم رہا ہے.اور پشتو زبان کو تو فارسی کا دوسرا شکل قرار دیا جاتا

ہے اور دونوں کا قواعد بهی زیادہ تر ایک جیسے ہے.برطانوی استعماری سے پہلے، فارسی کو برّصغیر

میں دوسری زبان کا درجہ حاصل تھا؛ اِس نے جنوبی ایشیاء میں تعلیمی اور ثقافتی زبان کا امتیاز

حاصل کیا اور مُغل دورِ حکومت میں یہ سرکاری زبان بنی. 1843ء سے برّصغیر میں انگریزی

صرف تجارت میں استعمال ہونے لگی. فارسی زبان کا اِس خطہ میں تاریخی رُسوخ ہندوستانی

اور دوسری کئی زبانوں پر اس کے اثر سے لگایا جاسکتا ہے. خصوصاً، اُردو زبان، فارسی اور

دوسری زبانوں جیسے عربی اور تُرکی کے اثر رُسوخ کا نتیجہ ہے، جو مُغل دورِ حکومت میں سب

سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے.

قدیم فارسی، ایران کی قدیم زبان اور رسم الخط

 

قدیم فارسی رسم الخط کے حروففارسی قدیم کا رسم الخط دوسرے تمام میخی خطوط جیسے سمیری، عکادی

اور بابلی وغیرہ سے سادہ تر اور صحیح تر ہے اسے ”پارسی پاستا ن“اور ہخامنشی زبان بھی کہتے ہیں،

تقریباً 700 ق م میں فارس (موجودہ:ایران) کے بادشاہ ہخامنش نے ناصرف اہل عکاد کی علامتی

حروف کو سلیبی حروف میں تبدیل کر وایا بلکہ ان کی شکل بھی آسان اور مختلف کردی۔ انھوں نے

ٹیڑھی میڑھی پیچیدہ میخوں کو ترک کر دیا اور صرف عمودی اور افقی میخوں کو اختیار کیا

 

گرائمر

فارسی قدیم کا یہ میخی خط یوں تو آرامی سے ماخوذ ہے مگر فارسیوں نے اس میں حرف علت کے

بجائے سلیبی حروف استعمال کرکے اس کی پیچیدگی دور کردی تھی، یہ زبان سنسکرت سے ملتی جلتی

تھی اور بائیں سے دائیں لکھی جاتی تھی۔ اس کے حروف کی تعداد 36 ہیں اور چار سو سے زیادہ

علامتی الفاظ بھی اس میں جوں کے توں رائج رہے۔ چند علامتی حروف یہ ہیں خشائی ثیا (بادشاہ)، دھیاوش (ملک)، بومِش(زمین)، اہورمزد( خدا) اور بَگ(دیوتا)وغیرہ اس رسم الخط میں الفاظ کو جُدا رکھنے کے لیے ایک فل سٹاپ بھی موجود تھا اور ساتھ ہی سو تک گنتی بھی موجود تھی۔


فارسی زبان.jpg
2۔قدیم فارسی.jpg
قدیم فارسی
تاریخ

تاریخ

اصطخر کے شاہی قبرستان کا کتبہہخامنش کے عہد میں یہی زبان فوجی اور شاہی زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس عہد کے جتنے بھی کتبے دستیاب ہوئے وہ بالعموم فارسی قدیم میں تھے۔ فارسی قدیم کے دریافت شدہ کتبوں میں سب سے مشہور کتبہ بہتون ہے یہ کتبہ تین زبانوں فارسی قدیم، عیلامی اور بابلی میں ہے۔ دوسرا مشہور کتبہ” نقشِ رستم“ہے جو کہ دارا اوّل کے آباد کردہ شہر اصطخر کے شاہی قبرستان میںبادشاہوں کی قبروں پر تحریر ہے۔ فارسی قدیم، پارسیوں کی مذہبی زبان تھی اور ان مذاہب کی اولین تحریریں اور مذہبی احکام اسی خط میں لکھے جاتے تھے۔ قدیم فارسی کے بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں جو آج جدید فارسی میں شامل ہیں،

3۔ تاریخ.jpg
فارسی ابجد

فارسی کے حروف تہجی الفبای فارسی

 

فارسی حروف تہجی میں اردو کے برخلاف " ٹ ، ڈ ، ڑ " کو نہ تو لکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا تلفظ کیا جاتا ہے ۔ پس "ٹ" کے لئے " ت " ، " ڈ " کے لئے " د " اور " ڑ " کے لئے " ر " لکھا اور بولا جاتا ہے ۔اسی طرح انگریزی کے حرف T اور D کے لئے بالترتیب " ت " اور " د" کی آواز نکلتی ہے۔فارسی الفبا( الف با ) میں یا فارسی حروف تہجی میں اردو کے مرکب حروف کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے اور اردو کے حرف " ہ " اور " ھ " دونوں کا استعمال بطور یکساں کیا جاتا ہے پس بھ ، پھ ، تھ ، جھ ، چھ ، کھ ، گھ ، دھ اور ڈھ کے لئے فارسی بول چال میں کوئی متبادل حروف موجود نہیں ہے ۔ایک اور اہم بات یہ کہ فارسی الفبا میں اردو کی بڑی " ے " کو چھوٹی " ی " کی طرح ہی تلفظ کیا جاتا ہے اسی طرح اردو کی چھوٹی "ہ" کسی لفظ یا نام کے آخر میں آ جائے تو اسے بڑی " ے " کی طرح تلفظ کرتے ہیں ۔چھوٹی " ہ " کو فارسی میں ہائے غیر ملفوظ کہا جاتا ہے یعنی جسے تلفظ نہ کیا جاتا ہو ۔ یعنی چھوٹی " ہ " بڑی " ے "میں تبدیل کر دی جاتی ہے جیسا کہ عرض کیا گیا فارسی الفبا میں " ء " ہمزہ کو " ی " میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔اور اب فارسی کے کچھ الفاظ اور ان کے معنی اس وضاحت کے ساتھ کہ " فارسی بول چال " میں تذکیر و تانیث یا مذکر اور مؤنث کے لئے تمام ضمائر اور فعل ایک ہی طرح سے لکھے اور بولے جاتے ہیں:آمد آیا / آئیرفت گیا / گئیگفت کہامن میںشما تم / آپ ( یہ لفظ ملکیت کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ تمہارا ، تمہاری ، تمہارے )بود تھا / تھی - 

4۔فارسی ابجد.jpg

فارسي دري

 

سنہ 21 ميں جنگ نہاوند ميں ايرانيوں کي شکست کے بعد ايران عملا عربوں کے قبضے ميں آگيا- يہ قبضہ تيسري صدي ہجري ميں ايران ميں خود مختار ايراني رياستوں کے قيام تک برقرار رہا- خلافت عباسي ميں ايرانيوں کو بڑي اہميت حاصل ہوئي- ايک ايراني سردار ابو مسلم خراساني نے عباسي خلافت کے قيام ميں شاندار خدمات انجام ديں- يہ الگ بات ہے کہ عباسيوں نے اپنے اس محسن کو بھي قتل کراديا- عباسيوں کے نامور وزراء کا برمکي خاندان بھي ايراني الاصل تھا- ہارون الرشيد کے جانشين مامون کي ماں ايراني نژاد تھي اسي لئے امين و مامون ايراني نژاد تھي اسي لئے امين و مامون کي جنگ تخت نشيني ميں ايرانيوں نے مامون کا ساتھ ديا- اس کے حملے ميں مامون نے اپنے جرنيل طاہر ذواليمينين کو خراسان کي امارت بخشي اور طاہر نے خود مختاري کا اعلان کرکے ايران ميں عربوں کے تسلط کے بعد 205 ہ ميں پہلي ايراني حکومت کي بنياد رکھي- اس کے بعد ايران کے مختلف حصوں ميں صفاريوں (254-290) سامانيوں (261-389) ديلميوں (398-443) اور زياريوں (316-434) کي حکومتيں قائم ہوئيں-جديد ايراني مورخين کا خيال ہے کہ ايرانيوں نے عربوں کے تسلط سے آزاد ہونے کي کوششيں ہميشہ جاري رکھيں اس لحاظ سے وہ عربوں کے خلاف ہونے والي تمام شورشوں کا تعلق ايران کي تحريک آزادي سے جوڑتے ہيں ليکن تاريخي واقعات کي يہ توجيہ حد سے بڑھي ہوئي قوم پرستي کا نتيجہ ہے-عربوں کي فتح ايران اپنے دور رس اثرات کي بدولت بڑي اہميت کي حامل ہے اس سے ايران شہنشاہيت کا تسلسل منقطع ہوگيا- اور ايران وسيع اسلامي مملکت کا ايک صوبہ بن کر رہ گيا- ايرانيوں کي غالب اکثريت حلقہ بگوش اسلام ہو گئي- کچھ لوگ اپنے پرانے دين پر قائم رہے-ان لوگوں نے ايران قديم کے مذعبي اور ثقافتي ورثے کو نابود ہونے سے بچا ليا- انہوں نے پہلوي ادب ميں گرانقدر اضافے کئے اور يہ سرمايہ بعد کے اديبوں اور شاعروں کے بہت کام آيا- بعض زرتشتي وطن ترک کرکے ہندوستان چلے آئے-ايران ميں اسلام کي اشاعت اور عربوں کي حکومت کي وجہ سے عربي زبان کو بھي رواج حاصل ہوا- بہت سي ديني اور دفتري اصطلاحات عربي سے ايراني بوليوں داخل ہوئيں- آسان عربي خط نے پيچيدہ پہلوي خط کي جگہ لي- اسي دور ميں مشرقي ايران کے علاقوں خراسان اور ماوارء النہر کي زبان، ادبي زبان بني اور پارسي يا پارسي دري کہلائي- در کا لفظ "در" سے منسوب ہے اور پہلوي ميں "در" کا ايک معني دربار يا دربارگاہ شہنشاہي ہے يعني وہ زبان جو درباري اور سرکاري ہو اس زبان کا تعلق چونکہ شاہي دربار سے رہا اس لئے فارسي دري کہا گيا- ويسے بھي ايراني چونکہ شاہ پرست واقع ہوئے ہيں- اس لئے ہر اچھي چيز کو شاہ يا اس سے منسوب کرديتے ہيں- يہي وجہ ہے کہ زبان دري فصيح فارسي کے معنوں ميں بھي آيا ہے- تيسري اور چوتھي صدي ہجري ميں ايران کے انہي مشرقي علاقوں ميں خودمختار ايراني رياستيں قائم ہوئيں اور انہي کي سرپرستي ميں فارسي ادب کا آغاز ہوا- ادبيات فارسي کي تاريخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دنيا کي بيشتر زبانوں کي طرح فارسي ميں بھي شعر پہلے کہے گئے اور نثر بعد ميں لکھي گئي-

فارسی دری

فارسي ادب

 

ادبیات زبان فارسی کی عظیم اور طولانی عمر کو ایک هزار سال سے بھی زیادہ ھو چکے ھیں، اس مدت میں مُلک ایران بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ھے اور اس نے متعدد کامیابیاں اور ناکامیوں کا منھ دیکھا ھے نیز بہت سے تلخ و شیرین واقعات سے روبرو ھوا ھے، اس سرزمین کے باشندوں نے اس طولانی مدت میں مختلف انسانی علوم میں کوششیں کی ھیں اور بہت زیادہ تجربات حاصل کئے ھیں، اور اسرار و رموز اور علم و دانش سے بھری دنیا میں انسانی معاشرہ کو بہت سے اھم اور باقی رہنے والےنتائج پیش کئے ھیں، اسی وجہ سے صدیوں سے نتائج، تجربات، علوم اور اسلامی علم و مخصوصاً ایرانی مسلمانوں کے علم و دانش نے دنیا والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا اور اپنی طرف متوجہ کرلیا ھے۔فارسی کی گُھربار ادبیات نے مختلف پھلوؤں میں جیسے ہنر، شجاعت و بہادری ،دلکش واقعات، تاریخی افسانے، سیرت، تفسیر قرآن، علم و عرفان، فلسفہ اور اخلاق وغیرہ کے موضوعات میں فارسی زبان مسلمانوں کی هزار سالہ کوشش کو منعکس کرتی ھے، اسی وجہ سے یہ زبان مفاھیم اور ادبی اقسام میں وسعت کے لحاظ سے ایک وسع و عریض بہتے ھوئے دریا کے مانند ھے کہ ھر پیاسے (ھر ذوق و سلیقہ رکھنے والے) کی پیاس کو بجھا دیتی ھے ، چنانچہ اس معنی کو اس ثقافت کے اصلی اسباب و علل میں تلاش کرنا چاهئے۔

ايراني نقاد فارسي ادبيات کي پيشرفت کے لئے سلطان محمود کي کوششوں کا اعتراف بڑي نيم دلي سے کرتے ہيں. ان کي نظر ميں سامانيوں کا رتبہ اس ضمن ميں غزنويوں سے بہت اونچا ہے. کيونکہ ساماني ايراني الاصل تهے. انہيں اپنے ماضي سے محبت تهي اور اس ماضي کو زنده و محفوظ رکهنے کے لئے بڑي کوششيں کيں. ايراني فضلاء کا خيال ہے کہ سامانيوں کے برعکس غزنوي ترکي النسل تهے. انہيں ايران اور اس کي روايات سے دلچسپي نہيں تهي. يہ تو صرف مدح و ستائش کے خريدار تهے. انہوں نے صرف ان شعراء کو انعام و کرام سے نوازا جو ان کے قصيدے کںتے تهے. ليکن ايراني محققين کي يہ رائے انصاف پر مبني نہيں ہے. فردوسي کے ساته محمود کي بدولت کے فرضي يا حقيقي واقعہ کي وجہ سے محمود کے بارے ميں ان کي آراء ميں حقيقت کم اور تعصب زياده ہوتا ہے. عنصري اور فرخي نے قصيده گوئي کے علاوه غزل گوئي کي طرف بهي توجہ دي. اگر چہ قطعہ گوئي رواج نہ پا سکي ليکن ترجيع بند اور ترکيب بند کے اچهے نمونے غزنوي شعرا کے ہاے مل جاتے ہيں. مسمط تو اسي دور ميں ايجاد ںوئي. دکتر محجوب نے مختلف اوزان ميں اس عہد کي 51 مثنويوں کي فہرست دي ہے. ان ميں عنصري کي "وامق و عذرا" اور فردوسي کا شاہنامہ بهي شامل ہيں. اس دور کے شعراء کے کلام ميں واقعہ نگاري اور فطرت نگاري کي عمده مثاليں اور مناظر فطرت کي فنکارانہ تصوير کشي ملتي ہے. جزئيات نگاري شاہنامہ کي ايک اہم نکتے کي نشاندہي کي ہے کہ اس دور کے عاشقوں ميں بعد کے ادوار کے عشاق جيسي خاکساري اور نيازمندي نہيں ہے. اس کي وجں شايد يں ہے کہ فتوحات و مہمات کے اس دور ميں لوگوں ميں جنگ جوئي کے جذبات غالب تهے.

فارسی ادب

فارسی ضرب الامثال

فارسی ضرب الامثال
  • White Twitter Icon
  • White Facebook Icon
  • White Vimeo Icon
  • White YouTube Icon
  • White Instagram Icon

Copyright© 2019 by Shabbir Ahmad Shigri

bottom of page