فارسي ادب
ادبیات زبان فارسی کی عظیم اور طولانی عمر کو ایک هزار سال سے بھی زیادہ ھو چکے ھیں، اس مدت میں مُلک ایران بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ھے اور اس نے متعدد کامیابیاں اور ناکامیوں کا منھ دیکھا ھے نیز بہت سے تلخ و شیرین واقعات سے روبرو ھوا ھے، اس سرزمین کے باشندوں نے اس طولانی مدت میں مختلف انسانی علوم میں کوششیں کی ھیں اور بہت زیادہ تجربات حاصل کئے ھیں، اور اسرار و رموز اور علم و دانش سے بھری دنیا میں انسانی معاشرہ کو بہت سے اھم اور باقی رہنے والےنتائج پیش کئے ھیں، اسی وجہ سے صدیوں سے نتائج، تجربات، علوم اور اسلامی علم و مخصوصاً ایرانی مسلمانوں کے علم و دانش نے دنیا والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا اور اپنی طرف متوجہ کرلیا ھے۔فارسی کی گُھربار ادبیات نے مختلف پھلوؤں میں جیسے ہنر، شجاعت و بہادری ،دلکش واقعات، تاریخی افسانے، سیرت، تفسیر قرآن، علم و عرفان، فلسفہ اور اخلاق وغیرہ کے موضوعات میں فارسی زبان مسلمانوں کی هزار سالہ کوشش کو منعکس کرتی ھے، اسی وجہ سے یہ زبان مفاھیم اور ادبی اقسام میں وسعت کے لحاظ سے ایک وسع و عریض بہتے ھوئے دریا کے مانند ھے کہ ھر پیاسے (ھر ذوق و سلیقہ رکھنے والے) کی پیاس کو بجھا دیتی ھے ، چنانچہ اس معنی کو اس ثقافت کے اصلی اسباب و علل میں تلاش کرنا چاهئے۔
ايراني نقاد فارسي ادبيات کي پيشرفت کے لئے سلطان محمود کي کوششوں کا اعتراف بڑي نيم دلي سے کرتے ہيں. ان کي نظر ميں سامانيوں کا رتبہ اس ضمن ميں غزنويوں سے بہت اونچا ہے. کيونکہ ساماني ايراني الاصل تهے. انہيں اپنے ماضي سے محبت تهي اور اس ماضي کو زنده و محفوظ رکهنے کے لئے بڑي کوششيں کيں. ايراني فضلاء کا خيال ہے کہ سامانيوں کے برعکس غزنوي ترکي النسل تهے. انہيں ايران اور اس کي روايات سے دلچسپي نہيں تهي. يہ تو صرف مدح و ستائش کے خريدار تهے. انہوں نے صرف ان شعراء کو انعام و کرام سے نوازا جو ان کے قصيدے کںتے تهے. ليکن ايراني محققين کي يہ رائے انصاف پر مبني نہيں ہے. فردوسي کے ساته محمود کي بدولت کے فرضي يا حقيقي واقعہ کي وجہ سے محمود کے بارے ميں ان کي آراء ميں حقيقت کم اور تعصب زياده ہوتا ہے. عنصري اور فرخي نے قصيده گوئي کے علاوه غزل گوئي کي طرف بهي توجہ دي. اگر چہ قطعہ گوئي رواج نہ پا سکي ليکن ترجيع بند اور ترکيب بند کے اچهے نمونے غزنوي شعرا کے ہاے مل جاتے ہيں. مسمط تو اسي دور ميں ايجاد ںوئي. دکتر محجوب نے مختلف اوزان ميں اس عہد کي 51 مثنويوں کي فہرست دي ہے. ان ميں عنصري کي "وامق و عذرا" اور فردوسي کا شاہنامہ بهي شامل ہيں. اس دور کے شعراء کے کلام ميں واقعہ نگاري اور فطرت نگاري کي عمده مثاليں اور مناظر فطرت کي فنکارانہ تصوير کشي ملتي ہے. جزئيات نگاري شاہنامہ کي ايک اہم نکتے کي نشاندہي کي ہے کہ اس دور کے عاشقوں ميں بعد کے ادوار کے عشاق جيسي خاکساري اور نيازمندي نہيں ہے. اس کي وجں شايد يں ہے کہ فتوحات و مہمات کے اس دور ميں لوگوں ميں جنگ جوئي کے جذبات غالب تهے.