ایرانی فن تعمیر
انتہائی ابتدائی دور میں ایرانی خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے لہذا اس وقت تک کسی تعمیر کا سوال ہی نہیں تھا۔ ۵۳۹ ق۔م۔ میں جب انھوں نے بابل کا علاقہ فتح کیا تو وہاں فن تعمیر نے بھی ایک نیا روپ اختیار کرنا شروع کیا۔ بخامنشی (Achaemenid) دور (۵۵۰ ق۔م۔ تا ۳۳۰ ق۔م۔) کی عظیم عمارتوں میں مجسموں کو استعمال کیا جانے لگا۔ ان میں یونانی، مصری اور سلطنت کے دوسرے صوبوں کے فن تعمیر کے اثرات صاف جھلکتے تھے۔سائرس (Cyrus) اور اردشیر (Artaxeras) کے محلات، دارا (Darius) اور ختشایارشا (Xerxes) کے شاندار محلات کے جو کھنڈرات تخت جمشید (Persepolis) میں ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان محلوں میں وسیع دربار ہال (Audience Hall) تھے۔ جن میں عظیم اور بلند ستون استعمال کیے جاتے تھے۔ ہال کے سامنے بارہ دریاں ہوتی تھیں جن میں چوکور ستون ہوتے تھے۔ محلوں تک پہنچنے کے لیے زینوں کے دوہرے سلسلے ہوتے تھے۔ اگرچہ ان کی تعمیرات میں مصری، یونانی، اور اشوری فن تعمیر سے بڑی مماثلت پائی جاتی تھی لیکن ان میں مکانی وسعت کا جو تصور تھا وہ ان کا اپنا تھا۔ یونانی عمارتوں کے برعکس ان محلوں کے ستون زیادہ پتلے اور نازک ہوتے تھے۔ مجسمے جو استعمال کیے گئے تھے ان میں سادگی اور حقیقت پسندی زیادہ تھی۔سکندر اعظم کے انتقال کے بعد (۳۲۳ ق۔م۔) ایران افراتفری کا شکار ہو گیا۔ ۲۵۰ ق۔م۔ میں پارتھیوں (Parthineans) کے آنے کے بعد سکون پیدا ہوا۔ ان کا فن تعمیر اگرچہ کسی قدر بھونڈا تھا مگر عمارتوں کا ہر پتھر اچھی طرح تراشا ہوا ہوتا اور ان پر کوئی مجسمہ بنا ہوتا تھا۔ساسانیوں نے ایران پر ۲۲۶ سے ساتویں صدی عیسوی تک حکومت کی۔ انھوں نے مدائن میں اپنا صدر مقام پھر سے تعمیر کیا۔ عالی شان محل تعمیر کیے جو مٹی اور اینٹ سے بنائے گئے تھے۔ انھیں تراشے ہوئے پتھروں سے سجایا گیا تھا اور رنگین پتھروں سے پچی کاری کی گئی تھی۔ یہ اپنے فرامین ہر جگہ پتھروں پر کندہ کروا کر اونچی جگہوں پر لگواتے تھے۔ایرانی فن تعمیر میں اسلام کے ابتدائی دور کے آثار بہت کم ملتے ہیں لیکن ایرانی فن تعمیر نے اسلامی فن تعمیر بالخصوص سوریا اور فلسطین کے فن کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ایک مربع پر ڈاٹو (Squinches) کے ذریعہ گنبد کی تعمیر ان ہی کی ایجاد ہے۔ عمارتوں کی سجاوٹ میں گچ کے ٹکڑے استعمال کرنے، انتہائی نازک اور خوبصورت بنیادی نقسے (Motifs) بنانے اور عمار ت میں تناسب پیدا کرنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ ایرانیوں کے ابتدائی اسلامی دور کی مشہور عمارت بخارہ میں اسماعیل کا مقبرہ ہے۔ یہ ۹۰۷ میں بنایا گیا تھا۔ سولہویں صدی تک ایران میں پچی کاری کا فن اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ جو اصفہان کے "میدان شاہ" کی عمارتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ صفوی دور میں محلوں کی سجاوٹ میں دیواری نقاشی (Mural Painting) کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ قاچار عہد میں فن تعمیر اور دوسرے فنون لطیفہ میں ایک قسم کی تھیٹری اسٹائل ترقی پا چکا تھا۔ سابق شاہ ایران رضا شاہ کے دور میں ہخامنثی دور کے فن کی جدید فن کے ساتھ آمیزش سے ایک نیا اسٹائل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جس میں قدیم اور جدید کو ہم آہنگ کیا گیا تھا۔